زہد کیا ہے؟

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:زہد دنیا میں آرزووں کا کم رکھنا ، ہر نعمت کا شکر ادا کرنا اور ان چیزوں سے  پرہیز کرنا ہے جن کو خدائے عزوجل نے حرام کیا ہے ۔

زہد کیا ہے؟

زہد کے معنی شے کا ترک کرنا اور اس سے دوری ، بے میلی وبے رغبتی اختیار کرنا ہے ، اور زہد کم سمجھنے اور حقیر جاننے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔

زہد  اصطلاح میں  دنیا سے روگرداں ہونا اور اس سے دلی ارادت نہ رکھنا  اور ضرورت بھر ہی اس سے فائدہ حاصل کرنا ہے ۔

اصطلاحی زہد سے اگر آخرت حاصل کرنے کے لیے دنیا کو ترک کرنا مراد لیا جائے تو اسے اعمال و کردار میں سے محسوب کیا جائے گا اور اگر دنیا سے بے میلی و بے رغبتی مراد لیا  جائے تو اسے فکر و نظر کی فہرست میں شمار کیا جائے گا ۔

دنیا کی دوستی سے دوری ، دنیا سے دل توڑ لینا اور اسے خیر باد کہہ دینا اور ضرورت بھر اس پر اکتفا کرنا ، دنیا کو چھوڑ دینا اور آخرت کو اپنا لینا ،غیر خدا سے امید نہ لگانا اور خدا کو اپنا لینا زہد ہے ، اور ہر شخص اور ہر چیز  سے دل توڑ کر فقط خدا سے امید رکھنا زہد کا سب سے بڑا درجہ ہے۔

ِ’’كَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ‘‘(۱)

تم ان چیزوں پر افسوس نہ کرو جو تم سے فوت ہوگئی ہیں اور ان چیزوں پر خوش نہ ہو جو تمہیں مل گئی ہیں ۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں

’’ من اراد ان یوتیہ اللہ علما بغیرتعلم و ھدی بغیر ھدایۃ فلیزھد فی الدنیا‘‘(۲)

جو شخص چاہتاہے کہ خداوند تعالی اسے علم بغیر تعلم اور پڑھائی کے ، اور ھدایت بغیر راہنمائی کے عطا کرے تو اسے دنیا میں زہد اختیار کرنا چاہیے ۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام زہد کی تعریف میں یہ ارشاد فرماتے ہیں

’’ الزہد فی الدنیا قصر الامل و شکر کل نعمۃ والورع عن کل ما حرم اللہ عز وجل‘‘ (۳)

زہد دنیا میں آرزوں کا کم رکھنا ، ہر نعمت کا شکر ادا کرنا اور ان تمام چیزوں سے پرہیز کرنا ہے جن کو خدائےعز و جل نے حرام کیا ہے ۔

                                                                                                                    زہد کے درجات

1۔ زہد عام : زہد عام سے مراد آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کے  دنیا کو ترک کرنا ہے ۔

2۔ زہد خاص:سے مراد عقلانی مراتب اور انسانی مدارج تک پہنچنے کیلئے حیوانی خواہشات اور شہوانی لذات کو ترک کرناہے۔

3۔ زہد خاص الخاص:سے مراد  الہی جمال جمیل کے مشاہدے اور ربانی معارف کے حقائق تک پہنچنے کے لیے روحانی لذات اور عقلانی خواہشات کو ترک کرنا ہے۔

جو کی روٹی                                 

اسود  کا بیان ہے کہ : علقمہ کے ساتھ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے حضرت کے سامنے کھجور کی چھالوں  سے بنا ہوا ایک طبق کے اندر ہم نے جو کی روٹی کے دو ٹکڑے دیکھے جو کے آٹے کی بھوسی روٹی کے اوپر دکھائی دے رہی تھی اور اسقدر مضبوط اور کڑی تھی کہ حضرت اسے زانو کے سہارے سے توڑتے تھے اور پھر اسے نمک کے ساتھ کھاتے تھے ، میں نے حضرت کی کنیز (فضہ) سے کہا کہ کیا ہوتا اگر تم اس آٹے کی بھوسی حضرت علی علیہ السلام کے لیے چھڑا دیتی؟

فضہ نے جواب دیا :لذیز روٹی حضرت علی علیہ السلام کھائیں تو اسکا گناہ میری گردن پر ہو گا اس وقت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام  نے مسکرا کر فرمایاکہ : میں نے  خود حکم دیا ہے کہ اس کی بھوسی نہ چھڑائے ۔

میں نے عرض کیا : کس وجہ سے ؟

حضرت نے فرمایا کہ : اسلئے کہ اس طرح نفس اور زیادہ ذلیل ہو گا اور مومنین میری پیروی کریں گے یہاں تک کہ میں اصحاب سے ملحق ہو جاوں ۔ ۴

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع

1۔ حدید:۲۳
2۔ المحضۃ البیضاء:ج۷ص۳۵۶
3۔ الکافی:ج۵ص۷۱،بحار الانوار:ج۷۵،ص۵۹
4۔الانوار النمانیہ:ص۱۸

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 45