حجاب، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے( دوسرا حصہ)

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:اسلام اور مغربی تہذیب میں حجاب کا چیلنج،یورپ میں حجاب کی قدر و قیمت کی نفی،مغربی ثقافت میں عورت کی تذلیل و تحقیر، یہ اس مضمون کی اہم سرخیاں ہیں۔

حجاب، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے( دوسرا حصہ)

دوسرا باب: مغربی تہذیب میں حجاب

اسلام اور مغربی تہذیب میں حجاب کا چیلنج

میں نے بارہا کہا ہے کہ یہ ہماری مجبوری نہیں ہے کہ ہم اپنے موقف کا دفاع کریں۔ دفاع تو مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت کو کرنا چاہئے۔ عورتوں کے سامنے جو بات ہم پیش کرتے ہیں اس کا کوئی بھی با شعور اور منصف مزاج انسان منکر نہیں ہو سکتا۔ ہم عورت کو عفت، پاکیزگی، حجاب، مرد و زن کی حد سے زیادہ آمیزش سے اجتناب، انسانی وقار کی حفاظت، غیر مردوں کے سامنے سجنے سنورنے سے اجتناب کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا یہ بری چیز ہے؟ یہ تو مسلمان عورت کے وقار کی ضمانت ہے، یہ عورت کے عز و شرف کی بات ہے۔ جو لوگ عورت کو اس انداز کے میک اپ کی ترغیب دلاتے ہیں کہ گلی کوچے کے لوگ اسے ہوسناک نظروں سے دیکھیں، انہیں اپنے اس نظرئے کا دفاع کرنا چاہئے کہ انہوں نے عورت کو اتنا کیوں گرا دیا ہے اور اس کی اس انداز سے تذلیل کیوں کر رہے ہیں؟! ان کو اس کا جواب دینا چاہئے۔ ہماری ثقافت تو ایسی ثقافت ہے جسے مغرب میں بھی با شعور افراد اور اچھے انسان پسند کرتے ہیں اور اسی انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہاں بھی با عفت و متانت خواتین اور وہ عورتیں جو اپنی شخصیت کو اہمیت دیتی ہیں کبھی بھی غیروں کی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کا ذریعہ بننا پسند نہیں کرتیں۔ مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت میں ایسی مثالیں بہت ہیں۔

یورپ میں حجاب کی قدر و قیمت کی نفی

مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں جواب دے جس نے گزشتہ ادوار سے موجودہ دور تک عورتوں کی اتنی توہین کی اور انہیں اتنا گرا دیا! آپ دیکھئے کہ یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتوں کو مالیاتی اختیارات حاصل نہیں تھے۔ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجدو اور عجیب و غریب انداز کی بے پردگی کے باوجود جو مغرب میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اس بے لگام جنسی اختلاط اور آمیزش کے باوجود جسے وہ عورت کے احترام اور قدر و قیمت کی علامت قرار دیتے ہیں، ان ساری چیزوں کے باوجود عورت کو یہ حق نہیں تھا کہ اس ثروت کو بھی جو اس کی اپنی ہوتی تھی، اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے! شوہر کے سامنے وہ اپنے مال و متاع کی بھی مالک نہیں ہوتی تھی۔ یعنی جو عورت شادی کرتی تھی اس کی ساری دولت اس کے شوہر کی ہو جاتی تھی۔ اسے یہ حق نہیں ہوتا تھا کہ خود اسے استعمال کرے۔ پھر رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل میں عورت کو مالکانہ حقوق ملے اور کام کی آزادی دی گئی۔ یعنی اس چیز سے بھی عورت کو محروم رکھا تھا جو بنیادی ترین انسانی حقوق میں شمار ہوتی ہے۔ ان کا سارا زور اقدار کا درجہ رکھنے والے امور کے منافی چیزوں پر تھا۔ حجاب کے سلسلے میں ہم جو اتنی تاکید کرتے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔

عورت کی عریانیت اور الکحل ازم، یورپی روایت

اس وقت دنیا میں کچھ مخصوص چیزوں کے سلسلے میں بڑی حساسیت دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر کسی شخصیت، کسی فلسفی، کسی سیاستداں نے عورت کی عریانیت کی مخالفت کر دی تو اس پر دنیا میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے! بہت سی بری عادتوں اور حرکتوں کے سلسلے میں یہ حساسیت نہیں ہے! اگر کوئی ملک پالیسی کے تحت شراب کی مخالفت کرنے لگے تو ایک شور شرابا مچ جاتا ہے اور تمسخرانہ مسکراہٹیں نظر آنے لگتی ہیں، اسے رجعت پسند کہا جانے لگتا ہے! یہ بھی کوئی ثقافت ہوئی؟ ثقافت کے جز کے طور پر عورت کی عریانیت اور نشے کو عمومی رواج کے طور پر متعارف کرانا کس کا کام ہے؟ اس کا تعلق یورپ سے ہے اور یہ چیز ان ممالک کی قدیمی تہذیب سے نکلی ہے۔ یہی چیزیں اب دنیا کے دیگر علاقوں میں مسلمہ رواج کا درجہ حاصل کر چکی ہیں اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو گویا اس سے گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ہو۔

مغرب کی متضاد باتیں

یورپی ممالک میں جو خود کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور اپنے پروپیگنڈوں میں ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی حقوق اور انسانوں کی آزادی کا موضوع ان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے یعنی انہی برطانیہ اور فرانس نے چند عورتوں یا لڑکیوں کو اتنی بھی اجازت نہیں دی کہ وہ اسلامی حجاب کے ساتھ آمد و رفت کر سکیں اور اسکولوں میں جائیں! اس مرحلے میں تو اکراہ و اجبار سب کچھ ان کے لئے جائز ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں رہ جاتا! لیکن اسلامی جمہوریہ پر اس وجہ سے کہ وہ معاشرے میں حجاب کو لازمی سمجھتا ہے ان حلقوں نے شدید اعتراض کیا ہے! اگر عورتوں کو کسی وضع قطع یا کسی لباس میں رہنے پر مجبور کرنا برا ہے تو یہ برائی حجاب کو ضروری قرار دئے جانے کی برائی سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ (حجاب) سلامتی و تحفظ سے زیادہ نزدیک ہے۔ کم از کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ دونوں کی باتوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے لیکن مغرب کا نظریہ یہ نہیں ہے۔

مغربی ثقافت میں عورت کی تذلیل و تحقیر

عورتوں کے مسئلے میں ہمارا موقف دفاعی نہیں، جارحانہ ہے۔ مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہیں، کیوں حجاب کو لازمی کر دیا گيا ہے۔ جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔ عورتوں کے قضیئے میں ان کی مشکل اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گيا ہے، اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے۔ یہ جو سفارت کاری کے امور میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں اس سے اس کاری ضرب کی تلافی نہیں ہو سکتی جو مغرب نے عورت پر لگائی ہے۔ انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں ہے۔ اسے چاہئے کہ سجے سنورے تاکہ مردوں کو اچھی لگے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے۔

 

حجاب، اسلامی ثقافت کی کنجی

کسی ملک پر دائمی قبضے اور تسلط کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کی ثقافت بدل دی جائے۔ یعنی اس ملک کو قابض ملک کی ثقافت میں ڈھال دیا جائے تاکہ وہ پوری طرح ہتھیار ڈال دے۔ مغرب والوں نے ماضی میں مشرقی خطوں میں یہ کام کیا لیکن انہیں بہت کامیابی نہیں ملی۔ اس وقت وہ افغانستان میں یہی کام کرنا چاہتے ہیں اور یقینا ان کا ایک ہدف یہ ہے کہ شخصیت اور تشخص ساز بنیادوں کو ختم کر دیں۔ بات اسلام سے شروع کرتے ہیں۔ حجاب کی مخالفت کرتے ہیں، لوگوں کی دینداری اور مذہبی علامتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان اقدار کی حفاظت کرنا چاہئے انہیں تقویت پہنچانا چاہئے۔

مغرب اسلامی جمہوریہ کو، جہاں عورتوں کی پوشاک کی ایک لازمی شکل معین ہے، تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن ان ملکوں کے سلسلے میں اس کی تیوریوں پر کبھی بل نہیں پڑتے جنہوں نے عریانیت اور عورت اور مرد کے ما بین بے پردگی کو جبرا لازمی قرار دے دیا ہے! اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ (حجاب) مغرب کی عام ثقافت کے برخلاف ہے۔ یہ (مغرب والے) اس سلسلے میں بہت حساس ہیں۔

یورپ میں حجاب پر پابندی

ان حالیہ چند برسوں میں یورپ میں، فرانس، جرمنی اور کچھ دیگر ممالک میں حجاب کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے۔ کچھ لڑکیاں اسکارف کے ساتھ اسکول جا رہی تھیں، انہیں صاف منع کر دیا گيا کہ "بالکل ہو ہی نہیں سکتا" اس کی مخالفت کی گئی! دوسری طرف آپ یہ دیکھیں گے کہ عالمی معیاروں کی بات کی جا رہی ہے۔ جب وہ اسلامی جمہوریہ کو کچھ فرائض کی انجام دہی کی تلقین کرنا چاہتے ہیں تو جس چیز پر ان کی سب سے زیادہ تاکید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ " ایران کو خود کو عالمی معیارات سے ہم آہنگ کر لینا چاہئے" معیارات سے مراد یہی چیزیں ہیں! یعنی وہ چیزیں جو مغربی ثقافت سے میل کھاتی ہوں۔ تو مغرب کی جانب سے یہ سخت گیر رویہ اور یہ دباؤ ہمیشہ رہتا ہے، جب بھی کوئی ثقافت بالخصوص یہ اسلامی ثقافت، جو اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھتی ہے اور کمزور اور دفاعی پوزیشن میں بھی نہیں ہے، آگے آنا چاہتی ہے تو اسے تذلیل، توہین اور شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ: بشکریہ http://urdu.khamenei.ir/index.php?option=com_content&task=view&id=656&It...

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 33