حجاب اور فرمایشات آیۃ اللہ خامنہ ای اور آیۃ اللہ سیستانی

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:ہم جو حجاب پر اتني تاکيد کرتے ہيں اس کي وجہ يہ ہے کہ حجاب سے عورت کو يہ آساني ہوتي ہے کہ اپنے مطلوبہ معنوي و روحاني مقام پر پہنچ جائے اور اس کے راستوں میں موجود رکاوٹوں کی بناء پر اس کے قدم نہ ڈگمگائیں۔

حجاب اور فرمایشات آیۃ اللہ خامنہ ای اور آیۃ اللہ سیستانی

مسلمان خواتین اور پرده

اگر مسلمان عورتوں کا مقصد یہ ہو کہ انھیں شریک حیات کا انتخاب کا حق نہیں ملا ہے تو اسلام نے ابتداء ہی سے یہ حق عطا کیاہے ۔چنانچہ حضرت خدیجہ کی سوانح حیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے شریک حیات انتخاب کرنے کا حق بھی دیا گیا اور اپنے اموال میں پورا پورا تصرف کرنے کا حق بھی۔ آپ اسلام میں پہلی خاتون ہے جس نے اپنے رشتے کیلئے پیغام بھیجا۔ اگر مسلمان عورتوں کا مقصد حق طلب العلم فریضة علی کلّ مسلم ومسلمة تعلیم و تعلّم کا مطالبہ ہے تو اسلام نے نہ صرف یہ حق انھیں عطا کیا ہے بلکہ ، کہہ کر ان پر بھی واجب قرار دیا ہے۔
اگر مسلمان عورتوں کا مقصد قانون اسلامی میں مرد و عورت میں برابری ہے تو اسلام نے یہ حق تمام انسانی گروہوں ،خواہ وہ حبشی ہوں یا قرشی، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ،سب کو برابر اور مساوی دیا ہے۔ اسلام کے اس پیغام کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایا ز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نوازاور اگر مسلمان خواتین کا غوغا اور شور وشرابہ کرنے کا مقصد ایک آبرو مندانہ زندگی گذارنا ہے جہاں کوئی اجنبی اس کی طمع نہ کرے، اور ایک شرافت مندانہ خاندان کی تشلیکل دینا ہے جو بے بندوبار افراد کی شر سے محفوظ رہے تو اسلام نے بہترین طریقے سے اس ماحول کو عورتوں کیلئے فراہم کیا ہے ،شاید کسی اور مکتب نے فراہم نہیں کیا ہے۔
لیکن اگر ان کا مقصد بے عفّتی ، شہوت رانی ، اخلاقی حدود کو پامال کرنا ،بے پردہ ہو کر گھر سے نکلنا ،محرم نا محرم کی تمیز کئے بغیر لوگوں میں مغربی طرز پر رہن سہن رکھنا ہو اور خاندانی آشیانے کو ویران کرکے نسلوں کو خراب اور بے سرپرست قراردینا ہے تو ہم قبول کرتے ہیں کہ اسلام نے ایسی آزادی عورت کو نہیں دی ہے۔یہ آزادی تو اسلام میں مردوں کیلئے بھی نہیں دی گئی ۔

اس قسم کی ننگین آزادی کے حصول کیلئے پارلیمنٹ ۔ اسمبلی اور دوسرے سرکاری ادارے بنانے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ کافی ہے کہ شرم وحیا کے پردے کو اتار پھینک دیں تاکہ مکمل طور پر بدن برہنہ اور عریان ہو جائے ۔ بجائے اس کے کہ ابھی سینہ اور ٹانگین عریان ہے، اور اس طرح بجای اس کے کہ رات کی تاریکی میں نامحرموں کے ساتھ رقص اور جنسی خواہشات پوری کرے، علنی طور پر دن کو ایسا کرے(حقوق زن در اسلام وجہاں ،ص١٦٠ ۔)

سوال: ایسی جگہوں پر جہاں پردہ نہ کرنا کسی کے گناہ میں ہڑنے کا سبب نہ بنتا ہو کیا عورتوں کے لیے سر ڈھانکنا واجب ہے(جبکہ پورا بدن ڈھکا ہوا ہو) جیسے یورپ جہاں لوگوں میں پردے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور کسی عورت کا سر کھلا رہنے سے لوگوں پو کوئی اثر نہیں پڑتا مگر جیسا کہ قرآن مجید میں آیا یے کہ خود کو ظاہر نہ کریں اور مردوں کے لیے ھیجان کا سبب بنیں۔ ہاں قرآن کے بقول آپ حجاب کی وجہ سے دوسروں سے ممتاز ہو جائیں گی یعنی قرآن مسلمان عورت کے لیے ارزش کا قائل ہے؟
جواب: حجاب خواتین کے لیے ضروری ہے اگر چہ ان کا بے حجاب ہونا کسی کے گناہ کا سبب نہ بھی ہو۔

سوال: کیا میرے لیے اپنے تیرہ چودہ سالہ رشتہ دار لڑکوں سے پردہ کرنا ضروری ہے؟
جواب: سوال: کیا میرے لیے اپنے تیرہ چودہ سالہ رشتہ دار لڑکوں سے پردہ کرنا ضروری ہے؟
جواب: عورت كيلئے لازم ہے چہرے اور ہاتهول كے علاوه تمام بدن کو نا محرم سے چھپائے حتی بالوں کو بهی ، اور احتیاط لازم یہ ہے کہ ممیز لڑکے سے، جو اچھا برا سمچھتا ہے، بھی چھپائے، کیونکہ عورت کے بدن پر اس کی نگاہ اس کی شہوت بھڑکنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ہاں عورت اپنے چہرے اور دونوں ہاتھ کو کھلا رکھ سکتی ہے اور اگر حرام میں پڑنے یا مردکو حرام نگاہ کی طرف مائل کرنے کے لیے ہو تو اس کا بھی چھپانا واجب ہے۔

سوال: عورت کے لیے کس عمر میں پردہ ضروری نہیں ہے؟
جواب: بالغ ہونے سے پہلے۔

سوال: کیا میں اپنے بے پردہ فوٹو اپنے دوست کو دے سکتی ہوں؟
جواب: جایز نہیں ہے۔

سوال: کیا دوستوں کی پارٹی میں بے پردہ بغیر اسکارف کے فوٹو کھنچوانے میں کوئی حرج ہے جبکہ وہ وعدہ کریں کہ یہ فوٹو کسی نامحرم کو نہیں دکھائے جائیں گے۔ اگر بعد میں وہ کسی کو دکھاتے ہیں تو اس گناہ کس کے ذمے ہے؟ اور دوستوں کی بات پر اعتماد پر ان کا کیا وظیفہ ہے؟
جواب: ایسی موقعوں پر خود فوٹو کھنچوانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نامحرم کو دکھانے کے ذمے دار دکھانے والے ہیں۔

سوال: کچھ مسلمان پردہ دار عورتوں کی یہ عادت ہے کہ وہ ٹھوڑی اور اس کے نیچے کا کچھ حصہ کھلا رکھتی ہیں اور گردن کو ڈھانپتی ہیں۔ کیا یہ صحیح ہےِ؟ اور چہرے کے کتنے حصہ کو کھلا رکھا جا سکتا ہے کیا کانوں کو بھی کھلا رکھ سکتے ہیں؟
جواب: کان چہرے میں شامل نہیں ہے لہذا اس کا ڈھانپنا واجب نہیں ہے لیکن ٹھوڑی اور اس کے نیچے کا کچھ حصہ چہرے کے حکم میں ہے۔

سوال: کیا پردہ دار لڑکی کسی نا محرم سے ڈرائوینگ سیکھ سکتی ہے جبکہ اس دوران حرام میں پڑنےکا خطرہ ہو سکتا ہے؟
جواب: برائی میں نہ پڑنے کی صورت میں جایز ہے۔

حجاب، اقدار کا جز:

مرد و زن کے ما بين ايک حد بندي کا موضوع مسلمانوں کے نزديک ايک بنيادي اصول ہے- يہ واقعي ايک بنيادي اصول ہے- مسلمانوں کا اس پر ايقان ہے- حالانکہ يہ فروع دين کا جز ہے- حجاب فروع دين کا حصہ ہے- ناجائز طريقے سے مرد و زن کي آميزش کي حرمت فروع دين کا جز ہے ليکن مرد و زن کے مابين حدود کا مسئلہ بذات خود اصول کا درجہ رکھتا ہے- يہاں سياہ چادر کي بات نہيں ہے، يہ خود کو اوپر سے ڈھانپ لينے کي بات نہيں ہے، يہ مسئلہ نہيں ہے کہ حجاب کي شکل کيا ہو- کيونکہ ممکن ہے کہ مختلف ادوار ميں، مختلف مقامات پر اور مختلف مناسبتوں کے لحاظ سے اس کي شکل بھي مختلف ہو- ليکن بذات خود يہ حد اور يہ حفاظتي ديوار اسلامي نظرئے سے بنيادي اصولوں ميں شامل ہے- حجاب کا مسئلہ اقدار سے تعلق رکھتا ہے- حجاب حالانکہ خود تو بلند تر چيزوں کے لئے مقدمے اور تمہيد کا درجہ رکھتا ہے ليکن بجائے خود بھي يہ اقدار ميں شامل ہے-
 مرد اور عورت کے روابط:
مرد و زن کے درميان ايک حد بندي ہے، وہ آپس ميں ايک دوسرے سے گفتگو کريں، لين دين رکھيں، بحث و تکرار کريں، دوستانہ انداز ميں گفتگو کريں ليکن اس حد بندي اور حفاظتي فاصلے کو ملحوظ رکھتے ہوئے- يہ چيز اسلام ميں ہے اور اس کا پاس و لحاظ ضروري ہے- مرد و زن کے درميان قائم سرحد سے تجاوز اور عورت کے انساني وقار کو مجروح کرنا اور اسے لذت کے سامان يا زرق برق مصنوعات کے استعمال کي مشين بنا دينا ممنوع ہے-

اسلام عورت کو ايسا با شرف اور با وقار ديکھنا چاہتا ہے کہ وہ قطعا اس بات پر توجہ نہ دے کہ کوئي مرد اسے ديکھے- يعني عورت ايسي با وقار رہے کہ اس پر اس کا کوئي فرق نہ پڑے کہ کوئي مرد اسے ديکھ رہا ہے يا نہيں- يہ کہاں اور وہ کہاں کہ عورت کا اپنے لباس، اپنے ميک اپ، اپنے طرز گفتگو اور چلنے کے انداز کے سلسلے ميں سارا ہم و غم يہ ہو کہ مرد اسے ديکھيں؟! ان دونوں کے مابين کتنا فرق ہے؟!

فطري انساني نظام:
حجاب انسان کي فطرت سے ہم آہنگ اقدار کا جز ہے- دونوں صنف مخالف کا حد سے زيادہ آميزش کي سمت بڑھنا، بے پردگي اور ايک دوسرے کے سامنے عريانيت فطرت انساني اور مزاج انساني کے خلاف عمل ہے- اللہ تعالي نے مرد و زن کي زندگي کو ايک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کي غرض سے اور فوائد کي بنياد پر ايک فطري نظام قائم کيا ہے تاکہ وہ دونوں مل کر دنيا کا نظم و نسق چلائيں- کچھ فرائض عورتوں اور کچھ مردوں کے دوش پر رکھ دئے ہيں اور ساتھ ہي مرد و زن کے لئے کچ حقوق کا تعين کر ديا ہے- مثال کے طور پر عورت کے حجاب کے سلسلے ميں مرد کے لباس سے زيادہ سخت گيري کي گئي ہے- يوں تو مرد کو بھي بعض اعضا کو چھپانے کا حکم ديا گيا ہے ليکن عورت کا حجاب زيادہ ہے- کيوں؟ اس لئے کہ عورت کے مزاج، خصوصيات اور نزاکت کو قدرت کي خوبصورتي و ظرافت کا مظہر قرار ديا گيا ہے اور اگر ہم چاہتے ہيں کہ معاشرہ کشيدگي، آلودگي اور انحراف سے محفوظ رہے اور اس ميں گمراہي نہ پھيلے تو اس صنف (نازک) کو حجاب ميں رکھنا ضروري ہے- اس لحاظ سے مرد پوري طرح عورت کي مانند نہيں ہے اور اسے تھوڑي زيادہ آزادي حاصل ہے- اس کي وجہ دونوں کي فطري ساخت اور اللہ تعالي کي نظر ميں نظام حيات چلانے کے تقاضے ہيں-

 خود نمائي ممنوع:
اسلام ميں تبرج ممنوع ہے- تبرج يعني فتنہ انگيزي کي غرض سے مردوں کے سامنے عورتوں کي خود نمائي- يہ ايک طرح کا فتنہ ہے اور اس سے بڑے مسائل پيدا ہوتے ہيں- اس سے يہي ايک مسئلہ پيدا نہيں ہوتا کہ ايک نوجوان لڑکي يا نوجوان لڑکے سے گناہ سرزد ہو رہا ہے، يہ تو بالکل ابتدائي چيز ہے اور شايد يہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سب سے معمولي چيز ہے، اس کا سلسلہ خاندانوں تک پہنچتا ہے- بے روک ٹوک اور بے لگام روابط خاندانوں کے لئے سم مہلک کا درجہ رکھتے ہيں- کيونکہ خاندانوں کا دار و مدار عشق و محبت پر ہوتا ہے- خاندان کي عمارت عشق و الفت پر ٹکي ہوتي ہے- اگر يہ (جذبہ) عشق، خوبصورتي کا عشق اور صنف مخالف کا عشق، کسي اور جگہ تسکين پانے لگے تو کنبے کي محکم بنياد ختم ہو جائے گي اور خاندان متزلزل ہو جائيں گے اور ان کي وہي درگت ہوگي جو آج بد قسمتي سے مغربي دنيا بالخصوص شمالي يورپ کے ممالک اور امريکا ميں ہوئي ہے- خاندان بکھر کر رہ جائيں گے، يہ بہت بڑي بلا ہے- اس بلا کا نقصان سب سے پہلے خواتين کو ہي پہنچتا ہے- يوں تو مردوں کو بھي بے شمار مشکلات اور سختيوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ليکن عورتوں کو زيادہ خسارہ ہوتا ہے اور پھر اس نسل کو جو دنيا ميں آ رہي ہے- دنيا اور امريکا کي اس گمراہ نسل کو آپ ديکھ رہے ہيں؟ اس کا سرچشمہ وہي ہے- يعني يہ چيز اس شر کا مقدمہ اور کنجي ہے جس سے پے در پے شر وجود ميں آتا ہے!

 حجاب اور عورت کي سماجي ترقي:
اسلام چاہتا ہے کہ عورتوں کا فکري، علمي، سماجي، سياسي اور سب سے بڑھ کر روحاني ارتقاء اپني بلند ترين منزل تک پہنچے اور ان کا وجود معاشرے اور انساني کنبے کے لئے زيادہ سے زيادہ اور بہتر سے بہتر ثمرات اور فوائد کا سرچشمہ قرار پائے- اسلام کي تمام تعليمات منجملہ حجاب کي بنياد اسي چيز پر رکھي گئي ہے- حجاب، عورت کو معاشرے سے الگ کر دينے کے معني ميں نہيں ہے- اگر پردے کے سلسلے ميں کسي کا تصور يہ ہے تو بالکل غلط ہے تصور ہے- حجاب، معاشرے ميں مرد اور عورت کي بے ضابطہ آميزش کو روکنے کا ذريعہ ہے- يہ آميزش معاشرے اور مرد و زن دونوں کے بالخصوص عورت کے نقصان ميں ہے .

http://www.khamenei.ir
http://www.tebyan.net
http://www.sistani.org

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 22