چھوٹے اور کم لباس نہیں، اسلامی پردہ ہے عورت کی آزادی کی علامت( ۱): سارہ بوکر

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:سارا بوکر عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی امریکی اداکارہ تھیں، اس مضمون میں انکے اسلام کی جانب اختیار کرنے اور حجاب اسلامی کی پابند ہونے کی داستان کو انہیں کی زبانی بیان کیا گیا ہے، اس داستان کو مطالعہ کرنے کے لیئے اس مصمون کی تینوں قسظوں کو ضرور پڑھیئے۔

چھوٹے اور کم لباس نہیں، اسلامی پردہ ہے عورت کی آزادی کی علامت( ۱): سارہ بوکر

امریکہ کی سابق ماڈل، فلم اداکارہ، فٹنس انسٹرکٹر سارا بوکر نے اپنی عیش و آرام اور مجلل زندگی کو چھوڑ کر اسلام اپنا لیا. چھوٹے لباس  پہن کر خود کو مکمل طورپر آزاد کہنے والی سارا، اب خود، اسلامی لباس 'حجاب' پہنتی ہیں اور کہتی ہیں کہ عورت کی سچی آزادی پردے (حجاب) میں ہے نہ کہ آدھے ادھورے کپڑے پہن کر اپنا جسم دکھانے میں.

پڑھیئے سارا بوكر کی زبانی کہ کس طرح وہ اپنی ٹھاٹ باٹھ والی زندگی کو چھوڑ کر اسلام کی پناہ میں آئیں.

میں امریکہ کے هارٹ لینڈ میں پیدا ہوئی. اپنے ارد گرد میں نے عیسائیت کے مختلف مسالک کو پایا. میں اپنے خاندان کے ساتھ بہت سے مواقع پر لوتھیرين چرچ جاتی تھی. میری ماں نے ، چرچ جانے کے لئے میری کافی حوصلہ افزائی کی اور میں  اس طرح لوتھیرين چرچ کی پکی پیروکار بن گئی. میں خدا پر یقین کرتی تھی لیکن چرچ سے منسلک بہت سے رواج مجھے اٹپٹے لگتے تھے اور میرا ان باتوں پر اعتماد نہیں تھا جیسے کہ چرچ میں گانا، مسیح اور کران کی تصاویر کی عبادت اور 'عیسی کے بدن اور خون' کو کھانے کی روایت.

آہستہ آہستہ میں امریکی طرز زندگی میں ڈھلتی گئی اور اور عام امریکی لڑکیوں کی طرح بڑے شہر میں رہنے، گلیمر، عیش و آرام بھری زندگی حاصل کرنے کی طلب مجھ میں  بڑھتی گئی. خوبصورت طرز زندگی کی چاہت کی وجہ سے ہی میں میامی کے جنوبی ساحل کی طرف چلی گئی جو کہ فیشن کا مرکز تھا. میں نے وہاں سمندر کے کنارے گھر لے لیا.اپنی توجہ کو  خود کو خوبصورت دکھانے پر مرکوز کرنے لگی. میں اپنی خوبصورتی کو بہت اہمیت دیتی تھی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف چاہتی تھی. میری خواہش رہتی تھی کہ لوگ میری طرف متوجہ رہیں. خود کو دیکھانے  کے لئے میں روز سمندرکے  کنارے جاتی. اس طرح میں اعلی اور فیشن والی زندگی جینے لگی . آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا لیکن مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے جیسے میں اپنے حسن کو چمکانے  اور دیکھانے کے معاملے میں آگے بڑھتی گئی، ویسے ویسے میری خوشی اور سکون و چین کا گراف نیچے آتا گیا. میں فیشن کی غلام بن کر رہ گئی تھی. میں اپنے خوبصورت چہرے کی غلام بن کر رہ گئی تھی. میری طرز زندگی اور خوشی کے درمیان فاصلہ  بڑھتا ہی گیا. مجھے اپنی زندگی میں خلاء سا محسوس ہونے لگا. لگتا تھا بہت کچھ چھوٹ رہا ہے. گویا میرے دل میں سوراخ ہو. خلا اور کمی کی یہ چوبھن میرے عضو-عضو کو مایوس اور دکھی کئے  رہتی تھی. کسی بھی چیز سے میرا یہ خلا اور تنہائی دور ہوتی نظر نہیں آتی تھی. اسی مایوسی اور چوبھن کی وجہ سے میں نے شراب پینا شروع کر دیا.نشہ کی عادت کے سبب میرا یہ خلا اور مایوسی زیادہ ہی بڑھتی گئی. میری ان تمام عادات کی وجہ سے میرے والدین نے مجھ سے کنارہ کشی اختیار کر لی. اب تو میں خود اپنے آپ سے بھاگنے لگی.

فٹنس انسٹركٹر وغیرہ کے کام سے  مجھے جو کچھ پیسہ ملتا وہ يوں ہی خرچ ہو جاتا. میں نے کئی كریڈٹ کارڈ لے لئے، نتیجہ یہ نکلا کہ میں قرض میں ڈوب گئی. دراصل خود کو خوبصورت دیکھانے پر میں خوب خرچ کرتی تھی. بال بنانے، ناخن سجانے، شاپینگ مال جانے اور جم جانے وغیرہ میں سب کچھ خرچ ہو گیا. اس وقت میری سوچ یہ تھی کہ اگر میں  لوگوں کی توجہ کا مرکز بنوںگی تو مجھے خوشی ملے گی. لوگوں کے دیکھنے پر مجھے اچھا لگے گا. لیکن ان سب کا نتیجہ الٹا نکلا. ان سب کے سبب میرے غم ، مایوسی اور بے چینی کا گراف بڑھتا ہی گیا.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اس مضمون کے باقی ۲ اور ۳ حصوں کو بھی ضرور پڑھیئے )

نوٹ: سارا بوكر،  ابھی 'The March for Justiceکی كميونیكیشن ڈائریکٹر ہیں اور The Global Sisters Networkکی بانی ہیں. ان سے srae@marchforjustice.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ: اس مضمون کو ہندی اور انگریزی میں مندرجہ ذیل لینک پر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
http://www.islamicwebdunia.com/2014/06/blog-post.html
http://extremelysmart.org/2011/11/26/sara-bokker/

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
18 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 67