چھوٹے اور کم لباس نہیں، اسلامی پردہ ہے عورت کی آزادی کی علامت( ۲): سارہ بوکر

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:سارا بوکر عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی امریکی اداکارہ تھیں، اس مضمون میں انکے اسلام کی جانب اختیار کرنے اور حجاب اسلامی کی پابند ہونے کی داستان کو انہیں کی زبانی بیان کیا گیا ہے، اس داستان کو مطالعہ کرنے کے لیئے اس مصمون کی تینوں قسظوں کو ضرور پڑھیئے۔

چھوٹے اور کم لباس نہیں، اسلامی پردہ ہے عورت کی آزادی کی علامت( ۲): سارہ بوکر

گذشتہ پہلی قسط سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان سب حالات پر قابو پانے اور اس کا علاج تلاش کرنے کے لئے میں نے برسوں  لگا  دیئے. میں نے سکون حاصل کرنے کے لئے نفسیات سے متعلق کی کتابوں اور ایکسرسائز وغیرہ کا بھی سہارا لیا. مجھے ان سے، اپنی  زندگی کو صحیح طریقے سے شروع کرنے کی طاقت ملی. سکون و چین حاصل کرنے کے لئے میں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنا شروع کیا. روحانیت میں دلچسپی لینے لگی. میں نے توجہ اور یوگا کو بھی سمجھنے کی کوشش کی. میں اس طرف زیادہ ہی مصروف ہو گئی، میں چاہتی تھی کہ میرے لئے یہ واضح ہو جائے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے اور کس طرح کرنا چاہئے. میں اپنی زندگی کے لئے ایک طریقہ اور اصول چاہتی تھی لیکن میں اس نام نہاد اعتدال پسند(لیبرل) اور رومانٹیک ماحول میں یہ حاصل نہیں کر پائی. اسی دوران امریکہ میں 9/11 کا دہشت گردانہ حملہ ہوا. اس واقعہ کے بعد اسلام پر ہر طرف سے حملے ہونے لگے. اسلامی اقدار اور ثقافت پر سوال اٹھائے جانے لگے. اگرچہ اس وقت اسلام سے میرا دور دور تک واسطہ بھی نہ تھا. اسلام کو لے کر اس وقت میری سوچ تھی کہ جہاں عورتوں کو قید رکھا جاتا ہے، مارا پیٹا گیا ہے اور یہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی وجہ ہے. اس درمیان، میں بین الاقوامی تعلقات کا بھی مطالعہ کرنے لگی. امریکی تاریخ اور اس کی خارجہ پالیسی کا بدصورت سچ بھی جانا. نسلی امتیاز اور ظلم کو دیکھ کر میں کانپ گئی. میرا دل ٹوٹ گیا. دنیا کے دکھوں نے مجھے دکھی بنا دیا. میں نے فیصلہ کیا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں پر ہو رہے ظلم کے خلاف مجھے بھی کچھ کرنا چاہئے. میں انٹرنیٹ کے ذریعے ہائی اسکول اور کالج کے طالب علموں کو مشرق وسطی کے لوگوں کے ساتھ کی جا رہی امریکی ناانصافی اور ظلم کے بارے میں معلومات دینے لگی. یہی نہیں، میں مقامی كارکنان کو ساتھ لے کر عراق کے خلاف ہونے جا رہی امریکی جنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے میں لگ گئی. اپنے اسی مشن کے دوران میں ایک حیرت انگیز شخص سے ملی، جو مسلمان تھا. وہ بھی عراق جنگ کے خلاف مظاہرہ میں لگا ہوا تھا. اس سے پہلے میں نے ایسے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو اپنے مشن کے تئیں اس طرح جی جان سے مصروف ہو. وہ انصاف اور انسانی حقوق کے لئے کام کرتا تھا. اس شخص نے اس مشن کے لئے اپنا ایک ادارہ بنا رکھا تھا. میں بھی اس ادارے سے جڑ گئی. اس کے ساتھ کام کرنے کے دوران میں نے اس سے اسلامی تہذیب، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے کئی قصے سنے. اس سے پہلے میں نے ان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سنا تھا. یہ سن کر میں دنگ رہ گئی. میں ان باتوں سے بہت متاثر ہوئی. میں اسلام سے متاثر ہو کر اس کا مطالعہ کرنے لگی اور میں نے قرآن بھی پڑھا. قرآن کے طرز و اندازنے مجھے اپنی طرف کھینچا. میں نے محسوس کیا کہ قرآن انسان کے دل اور دماغ پر گہرائی سے اثر چھوڑتا ہے. دراصل جس حقیقت کی مجھے تلاش تھی وہ مجھے اسلام میں ملی. باوجود اس کے کہ  شروع میں اسلام کو لے کر میرے دل میں کچھ غلط فہمیاں تھیں جیسے میں سمجھ نہیں پائی تھی کہ آخر مسلمان عورتیں پورا بدن ڈھکنے والا یہ مختلف طرز کا لباس کیوں پہنتی ہیں؟ میں سوچتی تھی کہ میں کبھی اس طرح کا لباس نہیں اپناوگي. اس وقت میری سوچ بنی ہوئی تھی کہ میں وہ ہوں جو سب کو نظر آتی ہوں، اگر دوسرے لوگ مجھے دیکھ ہی نہیں سکیں گے تو آخر میرا وجود ہی کہاں بچا؟ مجھے لگتا تھا خود کو ظاہر کرنا ہی میری شناخت اور بقا ہے. اگر دوسرے لوگ مجھے دیکھ ہی نہیں سکتے تو پھر میرا وجود ہی کہاں ہے؟ میں سوچتی تھی آخر وہ کیسی عورتیں ہیں جو صرف گھر میں رہیں، بچوں کی دیکھ بھال کریں اور اپنے شوہر کی سنیں. ایسی عورتوں کا آخروجود ہی کیا ہے؟ اگر وہ گھر کے باہر جاکر خود کی شناخت نہ بنائیں تو آخرایسی عورتوں کی زندگی ہی کا کیا فایدہ ؟ شوہر کی وفادار بنے رہنے کا آخر کیا مطلب؟

میں نے خواتین سے متعلق اپنے ان تمام سوالات کا جواب اسلام میں پایا. یہ جواب عقلی، سمجھ4 میں آنے والے اور اہم تھے. میں نے پایا کہ اسلام ایک مذہب ہی نہیں،  زندگی جینے کا طریقہ ہے. اس میں تمام طرح کے انسانوں کے لئے ہر معاملے میں ہدایت اور رہنمائی  ہے. زندگی سے منسلک ہر ایک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے. چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ہدایات ہیں جسے کھانا کیسے کھانا چاہئے؟ سونا کیسے چاہئے؟ وغیرہ. مجھے یہ سب کچھ حیرت انگیز لگا. یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میں نے خود کو اسلام کے لیے وقف نہیں کیا. دراصل اسلام کے مطابق چل پانا مجھے مشکل لگ رہا تھا. اس میں ذمہ داری بہت تھی. میں فطرتی طور پر ایک ضدی  قسم کی لڑکی تھی اور ایسے میں خدا کے تئیں پوری طرح سے لگن میرے لئے مشکل تھا..............................جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.(اس مصمون کے ۱ اور ۳ حصے کا ضرور مطالعہ کیجیئے)

نوٹ: سارا بوكر،  ابھی 'The March for Justiceکی كميونیكیشن ڈائریکٹر ہیں اور The Global Sisters Networkکی بانی ہیں. ان سے srae@marchforjustice.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ: اس مصمون کو ہندی اور انگریزی میں مندرجہ ذیل سایٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔
http://www.islamicwebdunia.com/2014/06/blog-post.html
http://extremelysmart.org/2011/11/26/sara-bokker/

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 62