چکیده:سارا بوکر عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی امریکی اداکارہ تھیں، اس مضمون میں انکے اسلام کی جانب اختیار کرنے اور حجاب اسلامی کی پابند ہونے کی داستان کو انہیں کی زبانی بیان کیا گیا ہے، اس داستان کو مطالعہ کرنے کے لیئے اس مصمون کی تینوں قسظوں کو ضرور پڑھیئے۔
گذشتی ۱ اور ۲ قسط سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔آخری قسط۔
جنوری 2003 کی بات ہے. سرد رات تھی. میں واشنگٹن ڈی سی سے مظاہرہ کرکے بس سے واپس آ رہی تھی. میں سوچنے لگی، میں زندگی کے کیسے چوراہے پر کھڑی ہوں. میں اپنے کام سے نفرت کرتی ہوں، شوہر کو چھوڑ کر میں جدا ہو گئی ہوں، جنگ کے خلاف لوگوں کو جمع کرتے کرتے میں افسردہ ہوگئی ہوں ،. میری عمر 29 سال تھی لیکن میرے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر میں کروں تو کیا کروں؟ میں مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی. میں رونے لگی اور اپنے 4آپ سے سوال کرنے لگی، میں ایک اچھی انسان بننا چاہتی ہوں اور اس دنیا کو بھی اچھا بنانے کی کوشش کرنا چاہتی ہوں لیکن سوچتی تھی، آخر کس طرح ہو یہ سب کچھ؟ آخر مجھے کرنا کیا چاہئے؟ مجھے اپنے اندر سے ہی اس کا جواب ملا، مسلمان بن جاؤ. یہی ہے کامیابی کا راستہ. میرے دل میں یہ جواب آتے ہی مجھے ایک الگ ہی طرح کے سکون اور چین کا احساس ہوا. میں خوشی اور جوش و خروش سے بھر گئی. گویا میرے اوپر امن کی چادر چھا گئی ہو. مجھے لگا مجھے اپنی زندگی کا مقصد مل گیا اور زندگی جینے کا سبب بھی. زندگی تو زندگی ہی ہے، یہ اتنی آسان بھی نہیں ہے لیکن میرے پاس تو رہنے کے لئے اب رہنما کتاب قرآن مجید ہے. ایک ہفتے بعد ایک مسجد کی بنیاد رکھنے کے لئے جمع ہوئے لوگوں کے سامنے میں نے کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام اپنا لیا. میں نے قبول کیا کہ اللہ ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے قابل نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں. وہاں تمام مسلم بہنوں نے مجھے گلے لگایا. میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے.
میں دوسرے دن بازار سے اسلامی لباس (حجاب) خرید لائی اور اسی دن سے میں نے اسلامی لباس پہننا شروع کر دیا. اسلامی لباس میں میں اسی راستے سے گزرتی تھی جس پر کچھ دن پہلے میں چھوٹے اور کم لباس پہن کر گزرا کرتی تھی. اگرچہ اس راستے میں لوگ، دکانیں، چہرے وہی تھے لیکن ایک چیزسب سے جدا تھی اور وہ تھی مجھے ملنے والی عزت اور سکون. اس گلی میں جو چہرے میرے جسم کو شکار کے طور پر دیکھتے تھے، وہ اب مجھے نئے نقطہ نظر اور احترام کے ساتھ دیکھنے لگے. میں نے فیشن سوسائٹی کے اوپری اور ظاہری دیکھاوے کے فیشن کی زنجیروں کو توڑ دیا جو مجھے غلام بنائے ہوئے تھی. سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے احساس ہوا کہ گویا میرے کندھوں سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو. دوسروں کے سامنے اچھا نظرآنے کا دباؤ اور سوچ میرے ذہن سے نکل چکی تھی. بہت سے لوگ مجھے حیرت سے دیکھتے،کچھ رحم کی نظر سے اور کچھ تجسس سے. حقیقت یہ ہے کہ اسلامی لباس پہننے کے بعد مجھے لوگوں کے درمیان اتنی عزت اور احترام ملا جو مجھے آج سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا. یہ تو اللہ ہی کا کرم تھا. جس مسلمان شخص نے میرا اسلام سے تعارف کروایا تھا بعد میں میں نے اسی سے شادی کر لی.
میرے اسلامی زندگی اپنانے کے تھوڑے ہی دنوں بعد خبریں آنے لگیں کہ کچھ سیاستدان اور مبینہ انسانی حقوق کے کارکنان، برقع کی مخالفت کر، اسلامی لباس کو، خواتین کے اوپر جبر اور ان پر ظلم کا سبب بتانے لگے. مصر کے ایک افسر نے تو برقع کو مسلم عورتوں کی پسماندگی کی علامت تک بتا ڈالا. مجھے یہ سب نفاق نظر آنے لگا. میرے سمجھ میں نہیں آتا آخر مغربی ممالک کی حکومتیں اور انسانی حقوق کی تنظیم جب عورتوں کے تحفظ کے لئے آگے آتی ہیں تو ان پر ایک ڈریس کوڈ کیوں مسلط کر دیتی ہیں؟ مراکش، ٹيونیشيا، مصر جیسے ممالک میں ہی نہیں بلکہ مغربی جمہوری کہے جانے والے ملک برطانیہ، فرانس، ہالینڈ وغیرہ میں حجاب اور نقاب پہننے والی عورتوں کو تعلیم اور کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے. میں خود خواتین کے حقوق کی حامی ہوں. میں مسلم خواتین سے کہتی ہوں کہ وہ اپنے شوہروں کو اچھے مسلمان بنانے کی ذمہ داری ادا کریں. وہ اپنے بچوں کی پرورش اس طرح کریں کہ بچے پوری انسانیت کے لئے روشنی کے مينارے بن جائیں. ہر اچھائی سے جڑ کر اچھائی پھیلائیں اور برائی سے روکیں. ہمیشہ سچ بولیں. حق کے ساتھ آواز اٹھائیں اور برائی کے سامنے آواز اٹھائیں. میں مسلمان عورتوں سے کہتی ہوں کہ وہ اسلامی لباس حجاب اور نقاب پہننے کا اپنا تجربہ دوسری عورتوں تک پہونچائیں. جن خواتین کو حجاب اور نقاب پہننے کا موقع کبھی نہ ملا ہو ان سے بتائیں کہ اس کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے اور ہم دل سے اسے کیوں پہنتے ہیں. ہم مسلمان خواتین اپنی مرضی سے پردہ کرتے ہیں اور ہم اسے چھوڑنے کے لئے قطعی تیار نہیں ہیں.
پہلے میں مسلمان نہیں تھی، اس وجہ سے میں اس بات پر زور دینا چاہوں گی کہ پردہ کرکے ہر عورتوں کو اس سے خوشی اور عزت حاصل کرنے کا حق ہے، جیسا کہ میں نے یہ حاصل کیا. پہلے چھوٹے لباس میری آزادی کی علامت تھے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس چھوٹے لباس نے مجھے روحانیت، سچے انسانی اقدار اور عزت سے دور کر دیا تھا. مجھے جنوبی ساحل کی مغربی خوبصورت طرز زندگی اور (تیراکی کے)چھوٹے لباس چھوڑنے میں ذرا بھی خدشہ محسوس نہیں ہوا کیونکہ ان سب کو چھوڑ کر اپنے رب کی چھاؤں میں سکون اور چین سے بھرپور زندگی جی رہی ہوں. میں پردے کو بہت پسند کرتی ہوں اور اپنے پردے کے حق کے لئے میں مرنے کو بھی تیار ہوں. آج پردہ عورتوں کی آزادی کی علامت ہے. وہ خواتین جو حیا اور حجاب کے خلاف بیہودہ اورنازیبا لباس پہنتی ہیں، ان سے میں کہنا چاہوں گی کہ آپ کو احساس نہیں ہے کہ آپ کس اہم چیز سے محروم ہیں.
میں نے مشرق وسطی کے ممالک کا سفر کیا اور اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ سے مصر منتقل ہو گئی. میں اپنی ساس کے ساتھ یہاں اسلامی ماحول میں زندگی گزارتي ہوں. مجھے ایک خوبصورت خاندان مل گیا. اس خاندان سے بھی بڑا خاندان، مسلمان معاشرے کے خاندان کی میں رکن بن گئی. یہ مجھ پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ مجھے ایسی زندگی حاصل ہوئی. اب میرا دکھ، مایوسی، تنہائی غائب ہے. میں اب ایک سماجی خاکے کے تحت زندگی گزار رہی ہوں. میری رہنمائی کے لئے قرآن کی صورت میں کتاب ہے. میں محسوس کرتی ہوں کہ میں کسی کی ہوں. میرا وجود ہے. میرا ایک گھر ہے. مجھے محسوس ہونے والا خلا پر ہو گیا ہے اور دل کو کمال کا احساس ہوتا ہے. مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی (موت کے بعد کی زندگی) میں بھی کامیابی عطا کرے گا.
نوٹ: سارا بوكر، ابھی 'The March for Justiceکی كميونیكیشن ڈائریکٹر ہیں اور The Global Sisters Networkکی بانی ہیں. ان سے srae@marchforjustice.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ: اس مضمون کو ہندی اور انگریزی میں مندرجہ ذیل سایٹ پر پڑھا جا سکتا ہے؛
http://www.islamicwebdunia.com/2014/06/blog-post.html
http://extremelysmart.org/2011/11/26/sara-bokker/
Add new comment