راہ خدا میں خرچ کرنا؟!

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:مومنین  اپنے مال میں سے انفاق کرتے ہیں چونکہ وہ معتقد ہوتے ہیں کہ خداوند متعال نے انہیں وہ مال عطا کیا ہے نہ کہ خود  اس کو حاصل کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ انفاق کرنا ان کے لئے دشوار کام نہیں ہوتا ہے۔

راہ خدا میں خرچ کرنا؟!

خدا وند متعال قرآن مجید میں بہت ہی خوبصورت انداز میں فرماتا ہے:

«إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَ إِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا (اسراء/۷) اب تم نیک عمل کرو گے تو اپنے لئے اور برا کرو گے تو اپنے لئے کرو گے»۔
اگر انسان اپنے گھر کے آنگن یا صحن میں پھول یا خوشبودار پودے لگائے تو اس کی خوشبو پہلے اسی کو محسوس ہوگی اور اگر کبھی ہوا چلی تو  دوسروں کو بھی وہ خوشبو میسر ہوگی۔ اور اس کے برخلاف اگر کوئی اپنے گھر میں بدبودار چیز رکھے تو اس کی بدبو پہلے صاحب خانہ  کو پریشان کریگی پھر کہیں کسی اور کو۔
بنا بر این، کام چاہے خیر ہو یا شر(برا)، اس کا اثر اور فایدہ یا نقصان پہلے اس کے کرنے والے تک پہونچتا ہے۔ اور یہ عمل انسان کو آزاد نہیں چھوڑتا اسی لئے قیامت کے دن انسان اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہوگا اور اس کے اعمال ہی اس کے لئے  بہشت یا جہنم کا راستہ بنیں گے۔دنیاوی لحاظ سے بھی اچھے اور برے اعمال اپنا اثر دکھاتے ہیں چھاہے اس کام کا کرنے والا مر چکا ہو۔
کار خیر، نیک عمل اور احسان کی مثالوں میں سے ایک ’’انفاق‘‘(راہ خدا میں خرچ کرنا) ہے، جسکی طرف قرآن مجید اسی(۸۰) سے زیادہ مقامات پر اشارہ کرتا ہے، مندرجہ ذیل چند آیتوں میں انفاق کے فائدہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

انفاق، معاشرے کو ہلاکت سے بچاتا ہے؛
اور راہ  خدا میں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو. نیک برتاؤ کرو کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے (بقره/۱۹۵)

مال میں اضافہ کا سبب بنتا ہے؛
جو لوگ راہ  خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتا ہے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی  (بقره/۲۶۱)

مال کے مبادلہ کاسبب قرار پاتاہے؛
بیشک ہمارا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے رزق میں چاہتا ہے وسعت پیدا کرتا ہے اور جس کے رزق میں چاہتا ہے تنگی پیدا کرتا ہے اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کرو گے وہ اس کا بدلہ بہرحال عطا کرے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے(سباء/۳۹)

انسان کے وجود میں فداکاری کی روح پھونکتا ہے؛
جو مال بھی تم راہ  خدا میں خرچ کروگے وہ دراصل اپنے ہی لئے ہوگا اور تم تو صرف خوشنودی خدا کے لئے خرچ کرتے ہو اور جوکچھ بھی خرچ کروگے وہ پوراپورا تمہاری طرف واپس آئے گا اور تم پرکسی طرح کا ظلم نہ ہوگا (بقره/۲۷۲)

نیکی کرنے والوں کے مقام تک پہونچنے کا راستہ؛

تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راسِ خدا میں انفاق نہ کرو اور جو کچھ بھی انفاق کرو گے خدا اس سے بالکل باخبر ہے  (آل عمران/۹۲)

جو کچھ راہ خدا میں دیا جائےگا وہ واپس بھی ملے گا؛
اور جو کچھ بھی راہ هخدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا (انفال/۶۰)

خدا سے قربت کا سبب ہے؛
ان ہی اعراب میں وہ بھی ہیں جو ا للہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے انفاق کو خدا کی قربت اور رسول کی دعائے رحمت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور بیشک یہ ان کے لئے سامانِ قربت ہے عنقریب خدا انہیں اپنی رحمت میں داخل کرلے گا کہ وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی ہے (توبه/100)

انفاق، اللہ کے نزدیک محفوظ ہوتا ہے؛
پھر بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکات ادا کریں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور ہم صاحبان علم کے لئے اپنی آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے رہتے ہیں (توبه/۱۲)

تزکیہ نفس کرتا ہے؛
پیغمبر آپ ان کے اموال میں سے زکات لے لیجئے کہ اس کے ذریعہ یہ پاک و پاکیزہ ہوجائیں اور انہیں دعائیں دیجئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین قلب کا باعث ہوگی اور خدا سب کا سننے والا اور جاننے والا ہے  (توبه/۱۰4)

یہ تمام آیتیں جو انفاق کی طرف رغبت اور شوق دلاتی ہیں، ایک تنبیہ ہے تاکہ انسان ہوش میں آئے اور اپنے مال و دولت کی محبت کو جتنا ممکن ہو، کم کرے یا ختم کرے۔
سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات میں متقین کے صفات کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا:«وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (بقره/۳) اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں »۔ اس لحاظ سے مومنین  اپنے مال میں سے انفاق کرتے ہیں چونکہ وہ معتقد ہوتے ہیں کہ خداوند متعال نے انہیں وہ مال عطا کیا ہے، نہ کہ خود  اس کو حاصل کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ انفاق کرنا ان کے لئے دشوار کام نہیں ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید صاف انداز میں کہتا ہے کہ «مَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّهِ (نحل/۵۳) اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے‏»۔

اہل بیت اطہار علیہم السلام کی زندگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے انفاق کے  علاوہ، ایثار اور قربانی کو اپنی سیرت کا حصہ بنایا تھا، جسکی طرف سورۂ ھل اتی میں اشارہ ہوا ہے۔

دوسرا واقعہ، امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کا منقول ہے جسے زہری نے بیان کیا ہے:

بارش اور ٹھنڈ والی ایک رات میں امام سجادؑ کو دیکھا کہ انکی  پیٹھ پر آٹے کی بوری تھی اور وہ گلیوں سے گزر رہے تھے۔

میں نے عرض کیا: یابن رسول اللہ یہ کیا ہے؟

امامؑ نے فرمایا: سفر کا قصد کیا ہے اور اس کے لئے زاد راہ  مہیہ کیا ہے۔

میں نے کہا: بوری کو میرے غلام کو دیدیجئے تاکہ وہ اٹھا لے، لیکن امامؑ نے نہیں قبول کیا۔

میں عرض کیا: میں خود اسے اٹھا لوں۔

امامؑ نے فرمایا: تمہیں خدا کے حق کی قسم دیتا ہوں، جاؤ اپنا کام دیکھو۔

میں نے بھی امامؑ سے خدا حافظ کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

کچھ دنوں کے بعد میں نے امامؑ کو دیکھا تو عرض کیا: یابن رسول اللہ گویا جس سفر کے بارے میں کہا تھا، آپ نہیں گئے!

امامؑ نے فرمایا: جیسا تم نے گمان کیا ویسا نہیں ہے۔ سفر کا مطلب موت کا سفر تھا، اور میں اس کے لئے آمادگی کر رہا ہوں۔ اور موت کے لئے آمادہ ہونے کا راستہ، گناہوں سے دوری  اور انفاق کرنا ہے۔(۱)

اس پورے ،مضمون کو پڑھنے  کے بعد انفاق کی اہمیت کا بھر پور اندازہ ہوتا ہے، لہذا ہمیں اس کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
حوالہ:
۱۔ اس مضمون میں  آیتوں کے ترجمے میں علامہ  جوادیؒ کے ترجمہ سے استفادہ ہوا ہے۔
2۔ بحارالانوار، علامه مجلسی، ج ۴۶، ص ۱۵، حدیث ۲۷.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 8 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 66