اخلاق وتربیت
۱: ذکر قلب ؛ یعنی انسان اپنے دل میں خداوند متعال کا ذکر کرتا رہے ، اس کی نعمت ، اس کے لطف و کرم ، قیامت اور میدان حشر کے حساب و کتاب کو اپنے دل میں یاد کرے ۔
عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَقْطِينٍ قَالَ: «... قَالَ (ع) إِنَّ خَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُمْ قَضَاءُ حَوَائِجِ إِخْوَانِكُمْ وَ الْإِحْسَانُ إِلَيْهِمْ مَا قَدَرْتُمْ وَ إِلَّا لَمْ يُقْبَلْ مِنْكُمْ عَمَلٌ حَنُّوا عَلَى إِخْوَانِكُمْ وَ ارْحَمُوهُمْ تَلْحَقُوا بِنَا» ۔
امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں قیام کی دو قسمیں ہیں ، ایک الہی قیام تو دوسرا شیطانی قیام ، خدا کیلئے قیام تمام شیطانی اور طاغوتی قیام کے برابر اور مد مقابل ہے کیوں کہ اگر قیام خدا کیلئے نہ ہوا تو یقینا شیطانی اور طاغوتی قیام ہوگا یعنی درحقیقت ایک ظالم کا قیام دوسرے ظالم کے مقابل قیام ہے ایک لوٹ گھسو
انقلاب اسلامی ایران کی پیروزی امام خمینی (رہ) کی مجاہدت، فداکاری ، اپ کے اخلاص اور عوام کی استقامت ، خود گذشتگی نیز شہیدوں کی جانفشانیوں کا نتیجہ ہے ۔ انقلاب اسلامی ایران کی پیروزی کو خدا کیلئے قیام کئے جانے کا نتیجہ اور اس کی برکتوں میں سے شمار کرنا چاہئے ۔
دعوت دینے والوں کی طرح دعوت پانے والے بھی دو طرح کے ہیں، بعض شیطان کی دعوت اور اس کی ولایت کو قبول کرلیتے ہیں ، اس کی باتوں اور مطالبات کو اپنے امور کی بنیاد قرار دیتے ہیں ، اسے اپنے کاموں میں شریک بنا لیتے ہیں ، اسے اپنے دل میں بیٹھا لیتے ہیں اور اس کی اغوش میں پرورش پاتے ہیں ۔
استاد اور معلم کا لقب، خدا کے صفات میں سے ہے اور اسے قران کریم سے لیا گیا ہے جیسا کہ قران کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا «عَلَّمَ اْلإِنْسانَ ما لَمْ یعْلَمْ ؛ جس [خداوند متعال] نے انسان کو وہ کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (۱)
رہبانیت (دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کردینا) کی اسلام میں شدید مذمت و مخالفت کی گئی ہے اور اس کے برخلاف اسلام نے شادی بیاہ کی بہت زیادہ تاکید کی ہے نیز مسلمانوں کو رہبانیت سے دور رہنے کی نصیحت فرمائی ہے ۔
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) نے ایک حدیث میں فرمایا :
زندگی کا محاسبہ ضروری
روایتیں اور آیتیں ہمیں اپنے اعمال کے محاسبہ کی تاکید کرتی ہیں ، کامیاب اور موفق ترین انسان وہ ہے جو ہر روز اپنے اعمال کا محاسبہ کرے تاکہ اپنے گناہوں کی توبہ اور خطاوں کی بھرپائی کرسکے ۔
رشوت کے سلسلہ میں قران کریم کا ارشاد ہے کہ "وَلاَتَاٴْکُلُوا اٴَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَاٴْکُلُوا فَرِیقًا مِنْ اٴَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ" ترجمہ: ایک دوسرے کے اموال آپس میں باطل (و ناحق) طریقے سے نہ کھاؤ اور گناہ ک
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پہلے دور میں ایک شخص تھا، اس نے حلال طریقے سے دنیا طلب کی نہ ملی پھر حرام طریقے سے دنیا طلب کی پھر بھی نہ ملی، اس کے بعد شیطان نے اس کے پاس آکر کہا کہ تونے حلال راہ سے دنیا طلب کی تجھے کامیابی نہیں ملی، تو تو نے حرام راستہ اختیار کیا پھر بھی نہیں ملی ، اب کیا م