اخلاق وتربیت
آج دیکھا یہی جارہا ہے کہ اکثر لوگ ذاتی مفادات والی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے پیش نظر اپنی ذات، اپنا خاندان، اپنی اولاد، اپنے حواریین اور اپنے عزیز و اقارب ہوتے ہیں، ان کی ترقیاں ہوتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے قائدین اور رہنماوں سے بدظن اور نالاں ہیں، ان کی باتوں میں وہ تاثیر اور درد و اثر نہیں، جس سے وہ لوگوں کے دلوں پر دستک دے کر ان کے فکر و نظر کو بدل سکیں اور ایک تغیر اور انقلاب لاسکیں، جب تک دل درد مند اور فکر ارجمند پیدا نہ ہو ، محض تقریر و تحریر سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
کبھی ایسے شخص کو کچھ نہیں کہنا چاہئے جس کا اللہ کے سوا کوئی نہ ہو۔ چار ٹائروں سے زیادہ چار آدمیوں کا خیال رہے(جو آپ کے جنازے کو لے کر چلیں گے) تو آدمی کبھی اپنی گاڑیوں کا تذکرے نہیں کرتا۔ یہ مزاج آرام سے نہیں ٹوٹتا، کسی ایسی جگہ جائیں جہاں نفس پرچوٹ پڑے، مزید تعریفیں نہ ہوں، تعریف و تذلیل دونوں سے آدمی کو بچنا چاہئے، یہ صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہیں۔
امیرالمؤمنین على ابن ابی طالب علیہما السلام نے فرمایا : مَا الْمُجاهِدُ الشَّهیدُ فِی سَبیلِ اللّهِ بِأعْظَمَ أَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ، لَکادَ الْعَفیفُ اَنْ یَکُونَ مَلَکاً من الْملائِکَةِ» (۱)
امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام نے اپنی ایک گفتگو میں مختلف سن میں بچوں کی معنوی تربیت کے راستہ اور طریقے بتاتے ہوئے فرمایا : [الإمام الباقر و الإمام الصادق عليهما السلام] إذا بَلَغَ الغُلامُ ثَلاثَ سِنينَ، يُقالُ لَهُ : قُل لا إلهَ إلاَّ اللّه سَبْعَ مَرّاتٍ .
اہل ایمان بھی یقین کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جس کا یقین زیادہ ہو گا اس میں اتنا زیادہ ہی صبر کی قوت ہوگی ، اور ظاہر و باطن میں اطاعت خداوندی بجا لائے گا اور جس کے یقین میں جتنی کمی ہوگی وہ اتنا ہی خداوند کی نافرمانی میں مشغول ہوتا جائے گا اور وہ لوگ جن میں یقین کی کمی ہوتی ہے ان کے دل ہمیشہ اسباب دنیا سے وابستہ رہتے ہیں، اگر وہ عبادت بھی کریں تو اس میں بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اور ایسے لوگ ہمیشہ زر و دولت اور منصب حاصل کر نے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔
محمد بن جعفر بن عاصم نقل کرتے ہیں کہ میں ایک سال حج سے واپسی پر مدینہ گیا اور وہاں امام کاظم علیہ السلام کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے اور حضرت کے ساتھ کھانے کا شرف حاصل ہوا ، ہم سب کھجوروں کے درختوں کے درمیان بیٹھے تھے کہ ناگہاں امام کاظم (ع) بھی تشریف لائے، اپ نے سب سے طشت میں موجود پانی سے ہاتھ
انسان کو فطری طور سے غذا اور کھانے کی ضرورت ہے اسی بنیاد پر مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ، ائمہ طاھرین علیھم السلام اور دین اسلام کی بزرگ اور عظیم ہستیوں اور شخصیتوں کی غذا اور خورد و نوش کی اشیاء نیز اس کے طور طریقہ پر خاص توجہ رہی ہے کہ انسان کیا کھائے اور کس طرح کھائے ۔
امام محمد باقرعلیہ السلام اپنے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرماتے ہیں:
«يا بُنيّ، إذا أنعَمَ اللّهُ عَلَيكَ بِنِعمةٍ فَقُل «الْحَمْدُاللَّه» وإذا حَزَبَكَ أمرٌ فَقُل «لاحَولَ ولاقُوّةَ إلّا بِاللّهِ» وإذا أبطأ عَليكَ الرِّزقُ فَقُل «أستغفِرُاللّهَ» ۔ [1]
اميرالمؤمنين على بن ابی طالب عليهما السّلام فرماتے ہیں "إِنَّ اَلنَّاسَ إِلَى صَالِحِ اَلْأَدَبِ أَحْوَجُ مِنْهُمْ إِلَى اَلْفِضَّةِ وَ اَلذَّهَب ؛ لوگوں کو سونے چاندی سے زیادہ ادب کی ضرورت ہے ۔ « [1]
مختصر تشریح:
دین اسلام نے رشتے اور خاندان کے تعلقات و روابط میں استحکام پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور اسی بنیاد پر صلہ رحم کو الہی اور دینی اقدار کا حصہ قرار دیا ہے ، قران کریم میں خداوند متعال نے صلہ رحم کو اپنی اطاعت و عبادت کے ہم پلہ بتاتے ہوئے کہا کہ «وَ اعبُدوا اللهَ وَ لاتُشرکوا بِهِ شَیْئاً وَ بالوالِدین