اخلاق وتربیت
ہم نے اپنی گذشتہ تحریر میں اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ خداوند متعال کے حکم اور ایات قران کریم کے واضح اور روشن پیغام کے تحت انسان، دو بہنوں سے ایک ساتھ عقد [شادی] نہیں کرسکتا کہ جس طرح دو کنیزوں سے کہ جو آپس میں سگی بہنیں ہیں مباشرت نہیں کرسکتا ۔
قران نے کریم نے گھر کو ذکر اور ایات الہی کی تلاوت کا مقام بتاتے ہوئے فرمایا کہ « وَاذْکرْنَ مَا یتْلَىٰ فِی بُیوتِکنَّ مِنْ آیاتِ اللَّهِ وَالْحِکمَةِ » (۱) ؛ اور ازواج پیغمبر تمہارے گھروں میں آیات الٰہی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے ۔
لغت میں لفظ «سکن» ہر اس چیز کے معنی میں ہے جس کے ذریعہ اور وسیلہ انسان کو چین و سکون فراھم ہو، گھر انسان کے قیام کی جگہ ہونے ساتھ ساتھ ذھنی سکون ، بعض سماجی قید و بند سے رہائی ، مرضی کے مطابق آرام کرنے ، خلوت گاہ ، محرموں اور خداوند متعال سے راز و نیاز کا مقام ہے کہ اگر کسی گھر میں یہ تمام چیزیں اور اوصاف موجود نہ ہوں تو وہ گھر ، گھر نہیں ہے ۔
انسانوں کی بدترین حالت یہ ہے کہ وہ کسی بھی چیز پر ایمان نہ رکھتےہوں اور کسی بھی حقیقت کے سامنے تسلیم نہ ہوں، پریشاں خیالی اور فاسد خیالات و احساسات کا شکار ہوں، اور پوری دنیا کو اپنے خیالات و احساسات کی طرح فاسد،غیر منظم،الجھن کا شکارفرض کرتے ہوں۔
"جویبر" رسول اسلام(ص) کے صحابی یمامہ کے رہنے والے تھے ، مدینہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا ، کوتاہ قد ، محتاج و برھنہ اور کسی قدر بدصورت بھی تھے ، پیغمبر اسلام (ص) اپ کو کافی تسلی دیتے تھے اور انحضرت (ص) کے حکم کے مطابق جویبر راتوں کو مسجد میں ہی
ایک دوسرے سے محبت اور احسان کا برتاؤ،تعلیمات،نصحتیں اور بے لوث خدمتپیش کرنا ایمان کے اثرات میں شامل ہے خاص طور پر ایسے لوگوں کےساتھ محبت و احسان کا برتاؤ جو کمزور اور مایوس یا بوڑھے اور کم درآمد والے ہیں،اگرچہ لوگوں کا محبت کا بھوکا ہونا ان پر احسان کرنے سے جدا ہے،قرآن مجید نے انفاق کے باب پر بھرپور توجہ دلائی ہے اسی طرح روحانی تکلیف نہ پہچانے پر بھی تاکید کی ہے۔
شادی اور ازدواجی زندگی کی تشکیل میں دیگر دست و پا گیر مسائل و مشکلات کی طرح ایک مسئلہ کفو کا ہے ، اور حقیقت امر یہ ہے کہ اکثر عوامی طبقہ کفو کے صحیح مفھوم و معنی سے ناواقف اور لا علم ہے ، لوگ بہت ساری چیزوں کو اپنی شان وشوکت کی خصوصیت اور اپنا حق سمجھتے ہیں ، جن کی حیثیت تکلفات سے زیادہ نہیں ہے ،
صدرِ اسلام میں خوارج کی طرز فکر یہی تھی اور آج بھی کچھ لوگ یہی خیال و گمان کرتے ہیں کہ بنیادی چیز عمل ہے اور ایمان کا ہونا یا نہ ہونا اہمیت نہیں رکھتا۔اور اسی لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں اگر لوگ عمل کے اعتبار سے ویسے ہی ہوں جیسے ایک اچھے مسلمان ہوتے ہیں تو یہ لوگ اگرچہ خدا کو نہ بھی پہچانتے ہوں اور قیامت پر ایمان نہ رکھتے ہوں تب بھی چونکہ ان کا عمل اچھا ہے اس لیے وہ ساری چیزیں جس کی طرف انبیاء دعوت دیتے ہیں یعنی دنیا اور آخرت کی سعادت پر یہ لوگ بھی فائز ہیں(اور انکے اور وہ مؤمنین جو عمل صالح انجام دیتے ہیں کے درمیان) کوئی فرق نہیں ہے؛اور ایمان بس مقدمہ ہے۔
بسم الله الرحمن الرحیم
شروع کرتا ہوں اس اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے
اللهمّ ارْزُقْنی فیهِ طاعَةَ الخاشِعین واشْرَحْ فیهِ صَدْری بإنابَةِ المُخْبتینَ بأمانِکَ یا أمانَ الخائِفین.
مورخین اور صاحبان قلم نے پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ذکر کیا ہے کہ «کان رسولالله صلیالله علیہ وآلہ وسلم اجود الناس بالخیر و کان اجود ما یکون فی رمضان» [۱] یعنی رمضان میں رسول اسلام (ص) کا جود و کرم اور اپکی سخاوت سب سے زیادہ تھی ۔