حضرت لقمان کا تربیت کرنے کا انداز

Mon, 06/28/2021 - 07:26
حضرت لقمان کا  تربیت کرنے کا انداز

 

            اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام میں جس طرح اولاد کو ’’وبالوالدین احسانا ‘‘فر ماکر والدین کی فرمانبرداری کی ترغیب دی گئی ہے ،اسی طرح دین اسلام نے والدین کو اولاد کی اچھی تربیت کا بھی حکم دیا ہے ۔مگر ہمارے معاشرہ میں عام طور پر والدین کے حقوق کے حوالہ سے بات کی جاتی ہے لیکن اولاد کے حقوق کی بات عمومی طور نہیں کی جاتی ہے ، یہ بات صحیح ہے کہ آج کے اس جدید دور میں بھی بعض ایسے شقی القلب جوان موجود ہیں جو اپنے والدین کی اتنی شفقت و محبت کے باوجود بڑھاپے میں انہیں بوجھ سمجھتے ہیں اس لئے اس موضوع پر لکھنا ، بولنا ضروری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی ماں باپ کی اتنی شفقت و محبت کے ساتھ اس کی صحیح  تربیت کی جاتی اور حقیقی معنوں میں اسکے حقوق جس میں بارز ترین مصداق تربیت ہے ادا کئے جائیں تو بڑھاپے میں یہ نوبت نہ آئے، یقینا ایک شفیق ماں باپ ہونے کی حیثیت سے بچوں کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت نہیں برتنی چاہئے کہ بعد میں شرمندگی سے روبرو ہونا پڑا، اس ضمن میں قرآن کریم کی مشہور سورہ، سورۂ لقمان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
            سورۂ لقمان میں حضرت لقمان نے نصیحت کرنے میں جن تربیتی نکات کو  استعمال کیا ہے وہ حقیقت میں اس دور میں ہمارے لئے نمونہ ہے خداوند حکیم نے اسے قرآن حکیم میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ: ’’وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ‘‘ اور اُس وقت کا ذکر کیجئے جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا ،بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے(۱)۔
            اپنی بات کو ادامہ دیتے ہوئے حضرت لقمان نے فرمایا کہ : ’’یا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِير‘‘ اے میرے بیٹے!اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تب بھی اسے معمولی نہ سمجھنا،وہ عمل ) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہویا پھر زمین کے اندر(زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو ) خداوند کریم  اسے ظاہر کردے گا،بے شک اللہ بڑا باریک بین وباخبر ہے ۔(۲)
            ان آیات کریمہ میں اللہ نے حضرت حکیم لقمان کی دانائی وحکمت والی نصیحتوں سے پہلےجس تربیتی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا  انہیں بیان فرماکر چند باتوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ۔

۱۔ بچوں کو احتراما نام سے نہ بلانا
            مندرجہ بالا آیت میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس کے نام سے نہیں پکارا ،بلکہ اے میرے لخت جگر، اے میرے بیٹے کہہ کر پکارا ہے ،جس سے پتہ چلا کہ نام لینے سے محبت کا وہ اظہار نہیں ہوتا ،جو’’ اے میرے بیٹے ‘‘کہنے سے محبت کا اظہارہوتا ہے ۔ جس طرح ماں لاشعوری عمر میں بچے کو محبت میں ’’میرالعل ،میراچاند ،میرامٹھو،میرا سوہنا‘‘ وغیرہ جیسے القاب سے پکارتی ہے اسی طرح جب بچہ شعوری عمر کو پہنچ جائے تو بھی اس سے اسی اندازِ محبت میں بات کریں گے تو ماں باپ کی بات بچے کے دل ودماغ پرزیادہ  اثر انداز ہوگی ۔

۲۔ دینی عقائد و افکار کی تعلیم
            محبت و شفقت سے مخاطب کرنے کے بعد  سب سے پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی ،وہ توحیدِ خداوندی سے متعلق تھی، کہ’’ میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا‘‘ ۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو سب سے پہلی دینی عقائد وافکار کی تعلیم دینی چاہیے تاکہ بڑا ہوکر وہ ایک اچھا  اور سچا مسلمان بنے ۔ظاہر سی بات ہے جب اسکے عقائد صحیح ہوں گے تو اعمال بھی ان شاء اللہ صحیح ہوں  گے،اگر عقائد قرآن واہل بیت علیھم السلام  سے متصادم ہوئے تو یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اچھے اعمال کرے گا  یا نہیں؟،اس لئے سب سے پہلے بچے کو دینی تعلیم دی جائے، قرآن واہلبیت علھیم السلام کی تعلیم،  ماہر ین قرآن و اہلبیت  سے دلوائی جائے۔
            ہمارے معاشرے کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جسمانی تکلیف مثلاً آنکھ میں درد ہوتو ہم آنکھ کے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ،دل کا مسئلہ ہو تو ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں لیکن جب علم قرآن کریم واحادیث اہلبیت کا معاملہ پیش آتا ہے تو ہم ایک مستند عالم ِدین کو چھوڑ کر غیر عالم کے پاس جاتے ہیں ،جس سے اکثر سدھار کی جگہ بگاڑ پید اہو جاتا ہے ۔

۳۔ کوئی بھی کام چھوٹا نہیں ہوتا
            حضرت لقمان نے اسلامی تربیت کے بعد جس چیز کو سب سے پہلے بیان فرمایا وہ ہے یہ ہے کہ اپنے کسی بھی عمل کو چھوٹا مت سمجھنا، حضرت لقمان  اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں کہ’’ میرے بیٹے! عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو روزِ محشر اللہ  اسے تمہارے سامنے لے آئے گا۔‘‘اس ایک جملہ سے بچوں میں ایک امید کے ساتھ آئندہ کچھ بڑا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، ماں باپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی ہر چھوٹی چیز پر اگر اچھا ہو اسے تشویق کریں لیکن کسی غلط کام پر اسے ایسے تنبیہ کرے کہ اس کا دل نہ ٹوٹے بلکہ امید میں اضافہ ہوجائے۔
            قارئین کرام! حضرت لقمان کی اپنے فرزند ِدلبند کو  نصیحتوں سے پہلے جوطریقہ اپنانا ہے وہ ہمارے لئے نمومہ ہے، حضرت لقمان نے  ہمیں بتایا ہے  کہ ہمیں اپنی اولاد (بچوں) سے ان کی نفسیات سامنے رکھ کر ،ان کی ذہنی اپروچ کا انداز لگا کر بات چیت کرتے رہنا چاہیے اور آج کے ماحول کا تقاضا یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ڈسکس کریں تو اس کے تنائج زیادہ بہتر رہیں گے ۔ڈانٹ ڈپٹنے کے دور گزر چکے ہیں ۔

 

حوالہ جات
(۱)سورہ لقمان آیت۱۳
(۲)سورہ لقمان آیت۱۴۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
11 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 89