ناصبی الزام لگاتے ہیں کہ چونکہ میر جعفر و میر صادق شیعہ تھے اور غدار تھے، اس لیے پوری شیعہ قوم ہی غدار ہے جبکہ یہ بات بالکل واضح سی ہے کہ غدار ہر قوم میں ہوتے ہیں اور اسکی وجہ سے پوری شیعہ قوم پر غدار کا الزام لگا دینا بغض کے سوا اور کچھ نہیں۔
ناصبی الزام لگاتے ہیں کہ چونکہ میر جعفر و میر صادق شیعہ تھے اور غدار تھے، اس لیے پوری شیعہ قوم ہی غدار ہے جبکہ یہ بات بالکل واضح سی ہے کہ غدار ہر قوم میں ہوتے ہیں اور اسکی وجہ سے پوری شیعہ قوم پر غدار کا الزام لگا دینا بغض کے سوا اور کچھ نہیں۔
ان احمقوں کو یہ پتا نہیں کہ نواب سراج الدولہ (جن کے خلاف میر جعفر نے غداری کی تھی) وہ بذات خود اہل تشیع سے تعلق رکھتے تھے ۔چنانچہ غدار کا کوئی دین، ایمان یا قوم نہیں ہوتی، بلکہ اسکا دین، ایمان اور قوم فقط پیسہ ہوتا ہے۔
مگر ناصبی حضرات کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اور وہ پھر بھی مسقتل طور پر شیعہ قوم کے خلاف پروپیگنڈہ جاری رکھتے ہیں۔ ان کا منہ بند کروانے کا ایک ہی طریقہ ہے، کہ انہیں طلحہ و زبیر و عائشہ کی غداری کا حال دکھایا جائے۔
یہ تینوں "ڈبل غداری" (دہری غداری) کے مرتکب ہیں۔
پہلی غداری انہوں نے عثمان ابن عفان کے خلاف کی۔
اور جب اپنے مذموم مقاصد (خلافت پر قبضہ) پر ناکام رہے تو پھر دوسری مرتبہ غداری امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے خلاف کی۔
جناب عائشہ کا کردار عثمان ابن عفان کے قتل میں: بیشمار اہلسنت علماء نے یہ نقل کیا ہے کہ جناب عائشہ عثمان کے پاس گئیں اور ان سے رسول (ص) کی وراثت میں سے حصہ طلب کیا۔ عثمان نے ان کو کوئی حصہ دینے سے انکار کر دیا اور انہیں یاد دلایا کہ یہ وہی تھیں جنہوں نے ابوبکر کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ فاطمہ (ع) کو رسول (ص) کی وراثت سے کوئی حصہ نہ دیں۔ چنانچہ اگر فاطمہ (ع) کو وراثت سے کوئی حصہ نہیں ملا تو پھر عائشہ کو کیوں ملنا چاہیۓ؟ اس پر عائشہ انتہائی غصے میں آ گئیں اور یہ کہتی ہوئی باہر نکلیں: "اس نعثل (بیوقوف بڈھے) کو قتل کر دو کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔"
اہل سنت کتب کے سنی حوالے:
1۔ تاریخ ابن اثیر، ج 3، ص 206
2۔ لسان العرب، ج 14، ص 141
3۔ العقد الفرید، ج 4، ص 290
4۔ اسد الغابہ، ج 3، ص 14، ذکر جمل
5۔ النہایہ، ج 5، ص
ابن اثیر نے النہایہ، ج5، ص 80 اور ابن منظور لسان العرب، ج 11، ص 670 پر لکھتے ہیں: نعثل اس کہتے ہیں جس کی لمبی داڑھی ہوتی ہے۔اور عائشہ نے کہا تھا کہ اس نعثل کو قتل کر دو۔ نعثل سے اُن کی مراد عثمان تھے۔
الرازی اپنی کتاب المحصول، جلد 4، صفحہ 343 پر لکھتے ہیں:۔ فكانت عائشة رضي الله عنها تحرض عليه جهدها وطاقتها وتقول أيها الناس هذا قميص رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يبل وقد بليت سنته اقتلوا نعثلا قتل الله نعثلا
ترجمہ:
عائشہ نے بھرپور کوشش کی کہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسائیں۔ اور وہ کہا کرتی تھیں: اے لوگو! ابھی تو رسول اللہ (ص) کا یہ کپڑا میلا بھی نہیں ہوا ہے مگر رسول (ص) کی سنت کے چیتھڑے اڑائے جا رہے ہیں۔ اس نعثل کو قتل کر دو۔ اللہ اس نعثل کو قتل کرے۔
سنی مؤرخ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ کامل، ج 3، ص 100 پر لکھتے ہے: "عبید بن ابی سلمہ، جو کہ عائشہ کا رشتہ دار تھا، عائشہ سے ملا جبکہ وہ مدینے کی طرف واپس جا رہی تھیں۔ عبید نے کہا، " عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور مدینہ آٹھ دن تک بغیر امام کے رہا۔" عائشہ نے پوچھا، " انہوں نے اگلا قدم کیا اٹھایا؟" عبید نے جواب دیا، "لوگوں نے علی (ع) کی طرف رجوع کیا اور ان کی بیعت کر لی۔" عائشہ نے پھر کہا، " مجھے مکہ واپس لے چلو۔" پھر عائشہ نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا اور بولنا شروع کیا، "بیشک! عثمان معصوم قتل ہوۓ، اور بخدا، میں ان کے قتل کا انتقام لوں گی۔ اس پر عبید نے کہا، "تم کیا اب عثمان کو معصوم بول رہی ہو، جبکہ یہ تم ہی تھیں جو لوگوں کو اکسایا کرتی تھی کہ اس نعثل کو قتل کر دو کہ یہ یہودی ہے۔"
علی (ع) نے عائشہ کو ایک خط لکھا، جیسا کہ سنی مٔورخ سیرت حلبیہ، ج 3، ص 356 پر لکھا ہے:
"تم نے اللہ اور اس کے رسول (ص) کی مخالفت میں اپنے گھر سے قدم باہر نکالا۔ اور تم نے ان چیزوں کا مطالبہ کیا جن پر تمہارا کوئی حق نہ تھا۔ تمہارا دعوی ہے کہ تم یہ سب امت کی بہتری کے لیے کر رہی ہو، لیکن مجھے بتاؤ، عورت کا اس میں کیا کردار ہے کہ وہ امت کی بہتری کے لیے (گھر) سے نکلے اور جنگوں میں حصہ لے؟ تم کہتی ہو کہ تم عثمان کے خون کا قصاص چاھتی ہو، جبکہ وہ قبیلہ بنی امیہ سے تھا اور تم قبیلہ تیم کی عورت ہو۔ اگر اس مسئلے پر نظر ڈالی جاۓ تو یہ کل کی ہی بات ہے جب تم کہا کرتی تھی کہ اس (عثمان) نعثل کو قتل کر دو۔ اللہ اس کو قتل کرے کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔"
سیرتِ حلبیہ، ترجمہ از مولانا محمد اسلم قاسمی، فاضل دیوبند
اور ابو فرج العبری نے یہ روایت نقل کی ہے:۔
ولقد كنت تقولين: اقتلوا نعثلا فقد كفر.
ترجمہ: اور یہ آپ (عائشہ) تھیں جو کہا کرتی تھیں اس نعثل کو قتل کر دو کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔
حوالہ: تاریخ مختصر الدول، جلد 1، صفحہ 55
حضرت عائشہ کا عثمان کو نعثل کہنا اتنا مشہور تھا کہ حضرت عائشہ کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی عثمان کو کھلم کھلا نعثل کی گالی دیتے تھے۔
ابن کثیر دمشقی اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتا ہے:
واقدی نے بیان کیا ہے کہ اسامہ بن زید نے یحیی بن عبدالرحمٰن بن حاطب سے، ابن کے باپ کے حوالے سے مجھ سے بیان کیا ہے کہ عثمان کے پاس نبی (ص) کا عصا تھا۔۔۔۔ جھجاہ غفاری نے عثمان سے کہا کہ اے نعثل اٹھ اور اس منبر سے اتر جا۔۔۔۔
حوالہ: البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، صفحہ 346
یہ جھجاہ غفاری کون تھے؟
یہ جھجاہ غفاری بذات خود صحابی تھے اور اس نے بیعت رضوان میں رسول اللہ (ص) کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی۔
علامہ ذہبی تاریخ اسلام (جلد ۳، صفحہ 560) میں جھجاہ غفاری کے متعلق لکھتے ہیں:۔
له صحبة ، شهد بيعة الرضوان
یعنی یہ جھجاہ غفاری صحابی تھے اور انہوں نے بیعت رضوان میں حصہ لیا۔
اور اگلے صفحہ پر ابن کثیر الدمشقی نے نعثل کے متعلق ایک اور روایت نقل کی ہے:
واقدی کا بیان ہے کہ محمد بن صالح نے عبید اللہ بن رافع بن نقاط سے بحوالہ عثمان بن شرید مجھ سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ عثمان جبلہ بن عمرو الساعدی کے پاس سے گذرے جب کہ وہ اپنی حویلی کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا، اور اُس کے پاس ایک طوق بھی تھا۔ اس نے کہا اے نعثل، خدا کی قسم میں آپ کو قتل کر دوں گا اور ایک خارش زدہ اونٹنی پر سوار کرا دوں گا اور ایک سیاہ سنگ آتشی زمین کی طرف نکال دوں گا۔
حوالہ: البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، صفحہ 347
نوٹ:
اوپر کے یہ دونوں واقعات (جس میں جھجاہ غفاری اور جبلہ بن عمرو الساعدی نے عثمان کو نعثل کی گالی دی) اُس وقت پیش آئے جبکہ اہلِ مصر پہلی دفعہ مولا علی(ع) کے کہنے پر محاصرہ اٹھا کر واپس چلے گئے تھے۔ (یعنی اہلِ مدینہ اکیلے تھے)
اور ان دونوں نے دیگر اہلِ مدینہ کے سامنے کھل کر عثمان کو نعثل کی گالیاں دیں، مگر اہلِ مدینہ میں سے کسی نے بھی انہیں روکا اور نہ عثمان کی طرفداری کی۔
یہ جبلہ بن عمرو الساعدی کون تھے؟
ابن عبد البر الاستیعاب (جلد 1، صفحہ 256) میں لکھتے ہیں:
من فقهاء الصحابة
یعنی یہ نہ صرف صحابی تھے، بلکہ صحابی میں بھی بلند تر مقام پر تھے اور فقیہ صحابی تھے۔
اور علامہ ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب الاصابہ، جلد 1، صفحہ 566 پر لکھتے ہیں:
شهد أحدا
یعنی جبلہ بن عمرو الساعدی وہ صحابی ہیں جنہوں نے جنگ احد میں حصہ لیا۔
البلادہوری اہل سنت کے مستند علماء سے ہیں۔ یہ اپنی کتاب انساب الاشراف، ج 4، ص 74 میں لکھتے ہیں:
"جب مدینہ میں صورتحال انتہائی بگڑ گئی تو عثمان نے مروان بن حکم اور عبد الرحمان کو حکم دیا کہ وہ عائشہ کو راضی کريں کہ وہ ان کے خلاف لوگوں کو اکسانا بند کریں۔ وہ اس کے پاس آۓ جب وہ حج کے لیے روانہ ہونے والی تھی۔ انہوں نے اس سے کہا: "ہماری اللہ سے دعا ہے کہ آپ مدینہ میں ٹہریں اور اللہ عثمان کو آپ کے شر سے بچاۓ۔"
عائشہ نے جواب دیا، "میں نے سفر کا سامان باندھ لیا ہے اور میں نے حج کرنے کی نذر مانی ہوئی ہے۔ خدا کی قسم، میں تمہاری بات نہ مانوں گی۔ اس پر مروان نے کہا: (وحرق قیس علی البلاد: حتی اذا ما استعرت اجننا)یعنی قیس نے شہروں کو آگ لگا دی یہاں تک کہ جب آگ بھڑک جائیگی تو اسے بجھا دے گا۔ (یعنی خود ہی آگ لگایا اور خود ہی بجھائے گا)۔ اس پر عائشہ نے کہا اس اشعار کو مجھ پر صادق کرنے والے، اگر تمہارے ساتھی(عثمان) کہ جن کے معاملے نے تمہیں مشقت میں ڈالا ہے، تو میں تو تمنا کرتی ہوں کہ عثمان میرے سامان کے ایک تھیلے میں بند ہوتا تاکہ میں اس اپنے ساتھ ڈھو کر لیجاتی اور سمندر میں پھینک سکتی۔"
مزید سنی حوالہ:
طبقات ابن سعد، اردو ایڈیشن (نفیس اکیڈمی) جلد 5، صفحہ 37
تاریخ مدینہ، عمر بن شعبہ العمیری، متوفی 262 ہجری، صفحہ 1172
عائشہ چاھتی تھیں کہ عثمان جلد از جلد قتل ہوں تاکہ وہ اپنے رشتہ دار طلحہ کو ان کی جگہ مسند خلافت پر بٹھا سکیں۔ سنی مورخ طبری لکھتا ہے کہ جب عثمان محاصرے میں تھے اور ابن عباس کی ملاقات عائشہ سے ہوئی جبکہ وہ مکہ کی طرف عازم حج تھیں۔ عائشہ نے ابن عباس سے اپیل کی کہ وہ عثمان کے خلاف حرکت میں آئیں۔
ابن جریر طبری نے واقدی سے، انہوں نے ابن ابی سبرہ سے، انہوں نے عبدل المجید بن سہیل سے، انہوں نے عکرمہ سے روایت کی ہے:
"اے ابن عباس! میں اللہ کے نام پر تم سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اس (عثمان) کو ترک کر دو اور اس کے متعلق لوگوں میں شبہات پیدا کرو کیونکہ اللہ نے تمہیں تیز زبان عطا کی ہے (اور تم یہ کام کر سکتے ہو)۔ ان لوگوں پر صورتحال واضح ہو چکی ہے اور روشنی کے مینارے بلند ہو چکے ہیں جو ان کی رہنمائی کریں گے۔ انہیں پتا ہے کہ عثمان کے ساتھیوں نے ان تمام زمینوں کو چوس لیا ہے جو کہ کبھی اچھی چیزوں سے بھرے ہوۓ تھے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ بیت المال کی چابیاں لے رہا ہے۔ (بیشک) اگر وہ خلیفہ بنتا ہے تو وہ اپنے چچا زاد بھائی ابو بکر کی پیروی کرے گا۔"
اس پر ابن عباس نے جواب دیا: "اے ام المومنین! اگر عثمان پر کوئی برا وقت آ گیا تو یقیناً لوگ صرف ہمارے ساتھی (مولاعلی علیہ السلام) کی پناہ ڈھونڈیں گے۔"اس پر عائشہ نے کہا، "خاموش رہو! میری کوئی خواہش نہیں ہے کہ تمہاری تکذیب کروں یا تم سے لڑوں۔"
تاریخ طبری، انگلش ایڈیشن، جلد 15، صفحہ 238
جب عثمان کے قتل کی خبر پہنچی تو عائشہ حج کے سفر میں تھیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ ان کا خیمہ گاڑھا جاۓ اور پھر آپ نے کہا:
"مجھے یقین ہے کہ عثمان اپنے لوگوں (بنی امیہ) پر برا وقت لاۓ گا جیسا کہ ابو سفیان اپنے لوگوں پر جنگ بدر میں لایا تھا۔"
البلاذری، انساب الاشراف، ج 5، ص 91
صحابہ کی گواہیاں کہ عائشہ نے عثمان کے قتل کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کر لی
جب جناب عائشہ کے منصوبے کے مطابق، عثمان کے قتل کے بعد طلحہ خلیفہ نہ بن سکے اور لوگوں نے مولا علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو عائشہ نے عثمان کی مخالفت ترک کر کے فورا" اسے مظلوم ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ اور لوگوں کو اس پر ابھارنا شروع کر دیا کہ وہ خون عثمان کے قصاص کے نام پر مولا علی(ع) کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
مولا علی (ع) نے کھلے عام عائشہ کے اس دہرے رویہ پر تنقید کی۔ صحابہ بھی اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف تھے کہ عائشہ نے عثمان کے خلاف لوگوں کو کیسے بھڑکایا تھا (یعنی حضرت عائشہ خود نعثل کہہ کر لوگوں کو عثمان کے قتل پر اکساتی تھیں)۔
سنی مؤرخ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ کامل، ج 3، ص 100 پر لکھتا ہے:
"عبید بن ابی سلمہ، جو کہ عائشہ کا رشتہ دار تھا، عائشہ سے ملا جبکہ وہ مدینے کی طرف واپس جا رہی تھیں۔ عبید نے کہا، " عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور مدینہ آٹھ دن تک بغیر امام کے رہا۔" عائشہ نے پوچھا، " انہوں نے اگلا قدم کیا اٹھایا؟" عبید نے جواب دیا، "لوگوں نے علی(ع) کی طرف رجوع کیا اور ان کی بیعت کر لی۔" عائشہ نے پھر کہا، " مجھے مکہ واپس لے چلو۔" پھر عائشہ نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا اور بولنا شروع کیا، "بیشک! عثمان معصوم قتل ہوۓ، اور بخدا، میں ان کے قتل کا انتقام لوں گی۔"
اس پر عبید نے کہا، "تم کیا اب عثمان کو معصوم بول رہی ہو، جبکہ یہ تم ہی تھیں جو لوگوں کو اکسایا کرتی تھی کہ اس نعثل کو قتل کر دو کہ یہ یہودی ہے۔"
قارئین، ملاحظہ فرمائیں کہ لوگ حضرت عائشہ کو عثمان کو نعثل کہنا نہیں بھولے اور انہیں عثمان کے مرنے کے بعد انکے نعثل کے یہ الفاظ یاد دلوا رہے ہیں۔
مولا علی (ع) نے عائشہ کو ایک خط لکھا، جیسا کہ سیرت حلبیہ، ج 3، ص 356 پر لکھا ہے:
"تم نے اللہ اور اس کے رسول (ص) کی مخالفت میں اپنے گھر سے قدم باہر نکالا۔ اور تم نے ان چیزوں کا مطالبہ کیا جن پر تمہارا کوئی حق نہ تھا۔ تمہارا دعوی ہے کہ تم یہ سب امت کی بہتری کے لیے کر رہی ہو، لیکن مجھے بتاؤ، عورت کا اس میں کیا کردار ہے کہ وہ امت کی بہتری کے لیے (گھر) سے نکلے اور جنگوں میں حصہ لے؟ تم کہتی ہو کہ تم عثمان کے خون کا قصاص چاھتی ہو، جبکہ وہ قبیلہ بنی امیہ سے تھا اور تم قبیلہ تیم کی عورت ہو۔ اگر اس مسئلے پر نظر ڈالی جاۓ تو یہ کل کی ہی بات ہے جب تم کہا کرتی تھی کہ اس (عثمان) نعثل کو قتل کر دو۔ اللہ اس کو قتل کرے کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔"
سیرتِ حلبیہ، ترجمہ از مولانا محمد اسلم قاسمی، فاضل دیوبند
ابن جریر طبری نے عثمان کی تدفین کے حوالے سے نعثل کی گالی کا ایک اور واقعہ بھی نقل کیا ہے:
جعفر نے عمرو اور علی سے، انہوں حسین سے، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے المجالد سے، انہوں نے یسار بن ابی کریب سے، اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ّ(جو کہ عثمان کی خزانچی تھے):
عثمان کو رات کے وقت دفن کیا گیا۔ اُس کے ساتھ صرف مروان بن حکم تھا اور اُس کے تین غلام اور پانچویں بیٹی تھی۔ اُس کی بیٹی نے اونچی آواز میں واویلا اور ماتم شروع کر دیا۔
لوگوں نے ہاتھوں میں پتھر اٹھا لئے اور آوازیں لگانا شروع کر دیں:
نعثل۔۔۔ نعثل۔۔۔ اور انہوں نے اُس کو تقریباً سنگسار ہی کر دیا تھا۔
تاریخ طبری، انگلش ایڈیشن، جلد 15، صفحہ 247
عثمان کے جنازے میں اہلِ مدینہ میں سے کوئی ایک بھی شخص شریک نہیں ہوا (سوائے بنی امیہ کے سات آٹھ لوگوں کے)۔ یعنی نہ مولا علی(ع) شریک ہوئے نہ حسن (ع) اور نہ حسین(ع)۔ اور نہ ہی طلحہ و زبیر و سعد بن ابی وقاص و ابو ہریرہ وغیرہ وغیرہ۔ مگر ناصبی حضرات ہیں کہ ابھی تک سیف کذاب کی روایات کے بل پر رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ اہلِ مدینہ تو عثمان کے مکمل جانثار تھے اور یہ صرف اور صرف یہ کچھ سبائی تھے جنہوں نے عثمان کی مخالفت کر کے اُسے قتل کر دیا۔
Add new comment