خلاصہ: انسان تعلیم حاصل کرتا ہوا جس بھی بلند علمی درجہ تک پہنچ جائے، پھر بھی وہ اللہ کا محتاج ہے۔
انسان کو جو طاقت، صلاحیت، علم اور جو کچھ ملتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے کیونکہ جب اللہ چاہے تو رفتہ رفتہ یا اچانک اس سے واپس لے سکتا ہے تو انسان کسی بات پر غرور و تکبر نہ کرے، اس لیے کہ وہ چیز پہلے یقیناً اس کے پاس نہیں تھی اور آئندہ اس سے چھِن سکتی ہے۔
جب وہ کچھ چیزوں اور کاموں کے بارے میں علم حاصل کرتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ اسے تعلیم دیتا ہے تو وہ جان لیتا ہے۔ اگر اللہ اسے تعلیم نہ دےتو وہ الف اور ب کے فرق کو بھی ہرگز نہیں پہچان سکتا، اگر اسے استاد نے اچھے طریقے سے پڑھایا اور اسے اچھی طرح سبق کی سمجھ آتی رہی تو یہ سب اسباب و وسائل اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے فراہم کیے ہیں اور اسے تعلیم دی ہے، پھر جب وہ اسکول میں پڑھتا ہوا بڑی جماعتوں سے گزر کر کسی اونچے علمی درجہ پر پہنچ جاتا ہے اور دن بدن ترقی و کمال کی منازل کو طے کررہا ہوتا ہے تو تب بھی وہ اپنی تعلیم کے حصول میں اللہ تعالیٰ کا اسی طرح محتاج ہے جیسے پہلے دن اسے استاد الف ب بولنا اور لکھنا سکھا رہا تھا۔
سورہ علق کی آیات ۳ سے ۵ تک میں ارشاد الٰہی ہے: "اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ . الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ . عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ"، "پڑھئیے! اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے۔ جس نے قَلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ اور انسان کو وہ کچھ پڑھایا جو وہ نہیں جانتا تھا"۔
علم حاصل کرکے بلند سطح پر پہنچ جانے سے اس کی محتاجی میں کمی نہیں آئے گی بلکہ محتاجی کی گہرائی مزید ظاہر ہوتی جائے گی، کیونکہ جب پہلے دن لکھنا پڑھنا شروع کیا تھا تو اس سے پہلے کچھ سیکھا ہوا نہیں تھا جسے محفوظ رکھنے کی بھی ضرورت ہو، لیکن جب اتنی تعلیم حاصل کرلی تو اس علم کو محفوظ رکھنے کے لئے قوتِ حافظہ کی سلامتی کی اسے انتہائی ضرورت ہے، اسی لیے جو لوگ جتنے بھی زیادہ تعلیم یافتہ ہوں، جب نسیان کی مرض میں مبتلا ہوجائیں اور ان کا حافظہ کمزور ہوجائے تو بہت سوچنے کے بعد دیر سے بات یاد آئے گی یا بعض اوقات بالکل ہی یاد نہیں آئے گی، علم تو علم ہے، اپنا نام بھی سوچ سوچ کر یاد نہیں آئے گا۔
اس کمال و زوال سے واضح ہوجاتا ہے کہ صرف اللہ ہی ہے جو انسان کو علم عطا فرماتا ہے اور اگر چاہے تو واپس بھی لے سکتا ہے، جیسا کہ بعض لوگوں سے اپنی حکمت کے تحت واپس لے لیتا ہے۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment