خلاصہ: جناب سلمان، ابوذر اور مقداد کا جھنم کے بارے میں سن کر تعجب کرنا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابو جعفر احمد قمی نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیتیں: «وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوۡعِدُہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ، لَہَا سَبۡعَۃُ اَبۡوَابٍ ؕ لِکُلِّ بَابٍ مِّنۡہُمۡ جُزۡءٌ مَّقۡسُوۡمٌ[سورۂ حجر،آیت:۴۳ اور ۴۴] اور جہنم ایسے تمام لوگوں کی آخری وعدہ گاہ ہے، اس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لئے ایک حصہ تقسیم کردیا گیا ہے»، رسول خد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل ہوئی تو آپ شدت کے ساتھ گریہ کرنے لگے، اصحاب کو نہیں معلوم ہورہا تھا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے گریہ کی وجہ کیا ہے، بعض اصحاب حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کے گھر آئے اور پورے ماجرے کے بیان کیا، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیھا)، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں آئی اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے گریہ کی وجہ دریافت کی تو اس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے گریہ کی وجہ کو بیان کی۔
حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے اپنے سر کو نیچے جھکایا اور فرمایا: افسوس ہے ان لوگوں پر جو جھنم میں جائیگے۔
جناب سلمان نے کہا: کاش میں حیوان ہوتا اور میرا کوشت کھایا جاتا تاکہ میں جھنم کا نام نہ سنتا۔
جناب ابوذر نے کہا: کاش میں پیدا نہ ہوا ہوتا تاکہ اس جھنم کا نام نہ سنتا۔
جناب مقداد نے کہا: کاش میں پرندہ ہوتا ناکہ میرا حساب نہ ہوتا اور مجھ پر عذاب نہ ہوتا[بحارالانوار، ج:۴۳، ص۸۸، ح:۹]۔
یہ ہمارے لئے لمحۂ فکر ہے کہ جس جھنم کا نام سن کر سلمان، ابوذر اور مقداد جیسے اصحاب اپنے بارے میں یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں،
تو پھر ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
*بحارالانوار، مجلسی، دار إحياء التراث العربي, بیروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ھ۔
Add new comment