سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: تئیسویں پارے کا مختصر جائزہ

Wed, 05/29/2019 - 12:31

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے تئیسویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: تئیسویں پارے کا مختصر جائزہ

لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿٤٠﴾سورة يس:علما ء فلکیات نے ہر دور میں ان آیات کی نئی نئی تفسیریں کی ہیں اور جس قدر فلکیات کا علم بڑھتا جا رہا ہے آیات کے مفاہیم میں تبدیلی ہوتی جا رہی ہے،متقدمین کا خیال تھا کہ آفتاب ایک مرکز پر چکر لگا رہا ہے،بعد والوں کے نزدیک دوڑنا اور چکر لگانا دو مختلف کام ہیں اور آفتاب اپنے محور پر چکر لگانے کے علاوہ ۱۲ میل فی سکنڈ کی رفتار سے آگے بھی بڑھ رہا ہے، اب یہ کدھر جا رہا ہے اس کا علم پروردگار کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے، بیشک کیسا صاحب قدرت و اختیار ہے وہ معبود جس نے اتنی طویل وعریض فضائے بسیط کو خلق کر دیا ہے کہ ہزاروں سال سے یہ دوڑ جاری ہے اور فضا کی وسعتوں میں کوئی کمی نہیں پیدا ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ آفتاب کی موجودہ حرکت کو پروردگار نے اپنی عزت اور اپنے علم کی علامت قرار دیا ہے، اور عزیز علیم کی مقرر کردہ تقدیر سے تعبیر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس بندے کی دعا سے اس حرکت میں تبد یلی پیدا ہو جائے اسے تقدیرساز کہا جا سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ خدا یہ کام خود اپنی طاقت سے کرتا ہے اوربندہ یہ کام اپنی دعا ؤں  اور عبادتوں سے انجام دیتا ہے۔
وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿٦١﴾ سورة يس:صراط مستقیم دو حدود کے مجموعہ کا نام ہےیعنی شیطان کی عبادت نہیں کرنا ہے اور رحمان کی عبادت کرتے رہنا ہے۔ لہذا صراط مستقیم سے وه افراد بھی دور ہیں جو دونوں کی عبادت کرتے ہیں اور  رِندی  ہی میں جنت تلاش کر رہے ہیں ،اور وہ افراد بھی دور میں جو دونوں سے الگ ره کر اپنی دنیا آباد کرنا چاہتے ہیں اور ہر مسئلہ میں  غیر جانبداری ہی کو عافیت کا راستہ تصور کرتے ہیں ۔
وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ ﴿٢٤﴾ سورة الصافات: روایات میں وارد ہوا ہے کہ عرصه محشر میں محبت اہلبیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ یہی وہ شے ہے جس کے بارے میں دنیا میں رسول اکرم نے بطور اجر رسالت سوال کیا تھا اور ہر انسان کو مسئول اور ذمہ دار قرار دیا  تھا۔
وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ ﴿٨٣﴾ سورة الصافات: لفظ شیعہ نیک کردار افراد کیلئے ایک قرآنی اصطلاح ہے، اس لئے جناب ابراہیمؑ کو بھی ان کے اتباع کی بنا پر جناب نوح ؑکے شیعوں میں سے قرار دیا گیا ہے جب کہ بعض مفسرین کے مطابق دونوں کے درمیان ۲۶۴۰سال کا فاصلہ ہے تو اگر اس طویل فاصلہ کے بعد جناب ابراہیمؑ جناب نوحؑ کے شیعوں میں شمار ہو  سکتے ہیں تو اتباع اور پیروی کی بنا پر آج  کے مؤمنی شیعہ علی ؑ کیوں نہیں ہوسکتے ہیں جن کے بارے میں خود پیغمبرؐ اسلام نے بشارت دی ہے کہ یاعلیؑ تم اور تمہارے شیعہ کامیاب اور کامران ہیں۔
إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ﴿١٧٢﴾ سورة الصافات: اس مقام پر یہ شبہ نہ ہو کہ جب خدا نے اپنے پیغام کے پہنچانے والے خاص بندوں سے مدد کا وعدہ کیا ہے توکبھی کبھی یہ حضرات دنیا والوں سے مغلوب کیوں ہو جاتے ہیں اور ہر محاز پر غالب اور فاتح کیوں نہیں نظر آتے ہیں، اس لئے کہ نصرت کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں کبھی یہ نصرت دلائل کی مضبوطی کے ذریعہ کی جاتی ہے اور کبھی اس کا تعلق حق پر ثباتِ قدم سے ہوتا ہے کہ شدت مصائب میں بھی ان کے ثبات قدم میں فرق نہیں آتا اور ہر معرکہ کو صبر و استقلال کے ساتھ سَر کر لیتے ہیں اور کبھی اس کا تعلق سیاسی قوت اور اقدار و غلبہ سے ہوتا ہے جو نصرت کی سب سے واضح قسم ہے اور جس کا ہر انسان کو انتظار رہتا ہے؛ حالانکہ اصولی بات یہ ہے کہ اس نصرت کو قدرے دیر میں منظر عام پر آنا چاہیے تا کہ بندگان خدا کے اخلاص کا اظہار اور امتحان ہو جائے ورنہ اگر سامنا ہی نہ کرنا پڑا اور ہر مرحلہ کو نصرت الہی ہی نے طے کرا دیا تو ان کے کردار کی عظمت کا اندازہ کس طرح ہو گا اور یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ نصرت رشته و قرابت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و کردار کی بنا پر شامل حال کی گئی ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 15 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 36