اہل بیتؑ کی سماحت(وسعت قلبی)، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مضمون میں حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں سے سماحت اور وسعت قلبی کی مختصر تشریح بیان کی گئی ہے۔

اہل بیتؑ کی سماحت(وسعت قلبی)، امام سجاد (علیہ السلام) کے خطبہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں اللہ کی حمد و ثنا اور دنیا کی پستی کو بیان کرنے اور آخرت کے لئے نیک اعمال بجالانے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ.  أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ"[1]، "اے لوگو! ہمیں چھ (صفات) عطا ہوئیں اور سات چیزوں کے ذریعے ہمیں فضیلت دی گئی۔ ہمیں (اللہ کی طرف سے) علم، حلم، سماحت، فصاحت، شجاعت اور مومنوں کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے"۔
اس مضمون میں ان چھ عطیات میں سے تیسری صفت سماحت (وسعت قلبی) کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔
سماحت کا سخاوت سے فرق یہ ہے کہ اگر سخی کے پاس مال ہو تو وہ مشکل کو حل کرنے سے دوری اختیار نہیں کرتا، لیکن بعض لوگ سخی ہونے کے علاوہ سَمح کی صفت کے بھی حامل ہوتے ہیں، یعنی ان کی غربت اور امیری کی حالت میں کوئی شخص ان کے دروازہ سے محروم نہیں جاتا۔ وہ ایسی شخصیات ہیں جن کی لوگ پناہ لیتے ہیں اور محروم نہیں لوٹتے۔
لوگوں میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں کہ اگر دینے کے لئے ان کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ وساطت کرتے یا قرضہ لے کر سائل کی مشکل کو حل کردیتے ہیں۔ بہرحال سماحت، سخاوت سے افضل ہے، البتہ کوئی شخص اس صفت کے لحاظ سے اہل بیت (علیہم السلام) تک نہیں پہنچ سکتا جیسا کہ دیگر صفات میں بھی ان حضراتؑ تک نہیں پہنچ سکتا۔ ان میں سے ایک حضرت امام سجاد (علیہ السلام) ہیں۔
سماحت کے چند نمونے حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی زندگی میں: آپؑ مدینہ طیبہ میں سو گھرانوں کے اخراجات دیتے تھے اور راتوں کو پانی، روٹی، کھجور اور دیگر چیزیں حتی لکڑیاں ان کے لئے لے جایا کرتے تھے، جبکہ آپؑ کا چہرہ چھپا ہوتا تھا اور وہ آپؑ کو نہیں پہچان سکتے تھے۔ بے سرپرست گھرانے جونہی آپؑ کو دور سے دیکھتے تو ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے: "جائنا صاحبُ الجِراب"، تھیلیوں کا مالک ہماری طرف آگیا۔ آنحضرتؑ کی شہادت کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ تھیلیوں والا وہ شخص، حضرت امام سجاد (علیہ السلام) تھے۔ آپؑ کے بعض قرابتدار بھی آپؑ کے بارے میں برابھلا کہتے تھے کہ آنحضرتؑ ہماری مدد کیوں نہیں کرتے، انہیں بھی آنحضرتؑ کی شہادت کے بعد معلوم ہوگیا کہ انہیں امداد، آنحضرتؑ کی طرف سے کی جاتی تھی۔[2] اس میں ہمارے لیے یہ درس پایا جاتا ہے کہ ہمارے جو رشتہ دار ہم سے کچھ طلب کرنے سے شرماتے ہیں، ہم انہیں کسی کے ذریعہ ان تک وہ چیز پہنچا دیں جس سے ان کی ضرورت پوری ہوجائے، تا کہ انہیں شرم نہ اٹھانا پڑے۔
آپؑ کی زندگی کے طور طریقوں میں سے یہ تھا کہ آپؑ بہت متواضع تھے اور انکساری کرتے تھے۔ آپؑ مستضف اور کمزور لوگوں سے ہمنشینی اختیار کرتے تھے، اس کام سے نہ صرف آپؑ کو عار نہیں تھا، بلکہ شوق سے ان کے پاس بیٹھتے اور دوستوں کی طرح ان کے ساتھ گفتگو کرتے۔ اہل سنت کے علامہ ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ بعض لوگوں نے آپؑ کے اس طریقہ کو پسند نہ کیا اور آنحضرتؑ کی نچلے طبقہ کے ساتھ ہمنشینی پر تنقید کی۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے ان کو یہ جواب دیا: "انی اجالس من انتفع بمجالسته فی دینی"[3]، میں اس سے ہمنشین ہوں گا جس کے ساتھ بیٹھنے سے اپنے دین میں فائدہ اٹھاوں"۔
آیت اللہ مکارم شیرازی نے سماحت کے معنی سعہ صدر (وسعت قلبی) اور بزرگواری کے  کیے ہیں[4]، لہذا اگر حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی سیرت میں وسعت قلبی کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آپؑ انتہائی سماحت اور وسعت قلبی کے حامل تھے، جیسا کہ مناوی کا کہنا ہے کہ "زین العابدین مضبوط اور قابل اعتماد امام ہیں اور آپؑ کی نیکیاں اور مکارم ہر جگہ مشہور ہیں اور آپؑ کے فضائل کائنات کی فضا میں پھیلے ہوئے ہیں، آپؑ بلند مقام اور سعہ صدر (وسعت قلبی) اور کرامت کے حامل تھے، آپؑ حکومت کے بدن کی نسبت سر کی حیثیت رکھتے تھے اور زمامداری اور امت کے امور کی تدبیر کے لائق تھے… "[5]
سماحت روایات کی روشنی میں: حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے اپنے فرزند حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) سے پوچھا: "یَا بُنَیَّ- مَا السَّمَاحَةُ قَالَ الْبَذْلُ فِی الْیُسْرِ وَ الْعُسْرِ" [6]، "اے میرا بیٹا! سماحت کیا ہے؟ امام حسن (علیہ السلام) نے عرض کیا: بذل اور عطا کرنا امیری اور غربت میں".
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے: "إذا اَرادَ اللهُ بِقومٍ نَماءً رَزَقَهُمُ السَّماحَة وَالْعِفافَ وَ اِذا اَرادَ بِقومٍ اِنْقِطاعاً فَتَحَ عَلَيْهِمْ بابَ الْخيانَة[7]"، "جب اللہ کسی قوم میں ترقی کا ارادہ کرے تو ان کو سماحت (درگذر کرنا) اور عفت کا رزق دیتا ہے اور جب کسی قوم کو ختم کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ان کے سامنے خیانت کا دروازہ کھول دیتا ہے "۔
کوئی شخص کوئی چیز بیج رہا تھا تو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اسے فرمایا: میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپؐ فرماتے تھے: "السَّماحُ وَجهٌ مِن الرِّباحِ"[8]، " درگذر اور نرمی کرنا، نفع کی ایک قسم ہے"۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے بہترین اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا: "الصّبرُ و السّماحَةُ"[9]، "صبر اور عطا کرنا"۔
حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "كُنْ سَمْحا و لا تَكُنْ مُبَذِّرا، و كُنْ مُقَدِّرا و لا تَكُنْ مُقَتِّرا "[10]، " عطا کرنے والا بن (سماحت کرنے والا)، لیکن فضول خرچ نہ بن، صرفہ کر نے والا بن، لیکن کنجوس نہ بن"۔
شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی کتاب معانی الاخبار میں بعض اقدار کی حدود جیسے مروت، تقوا، زہد، ورع، حسن خلق، سخاوت، سماحت اور جود اور نیز بعض بری صفات جیسے تکبر، حسد، جھوٹ وغیرہ کی حدود بھی ذکر ہوئی ہیں۔[11]
نتیجہ: اہل بیت (علیہم السلام) اور حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی سماحت اور وسعت قلبی میں ہمارے لیے یہ درس پایا جاتا ہے کہ ہم بھی ان حضرات کی سیرت پر چلتے ہوئے، کمزور اور مستضعف لوگوں کا تعاون کریں، جو شخص ہم سے کچھ طلب کرے ہم اس کی ضرورت کو پورا کریں اور لوگوں سے ایسا برتاو کریں جو سخاوت سے بڑھ کر ہو یعنی اس برتاو میں سماحت پائی جاتی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بلاغة الامام علي بن الحسين (ع)،جعفر عباس حائری، ص96۔
[2] نورالابصار، ص۱۵، کشف الغمہ، ج۲، ص289، بحار، ج46، ص66۔
[3] تاريخ دمشق، ابن عساکر، ج41، ص368۔
[4] پيام امام امير المومنين عليه السلام ، ناصر مكارم شيرازى، ج10، ص466۔
[5] دانشنامه امام سجاد علیه السلام، ج1، ص880، بنقل از الکواکب الدریه: 2 / 139۔
[6] مسند الامام المجتبی علیه‌السلام، ص 675، ح 1۔
[7] نهج الفصاحة، مجموعه‌ي كلمات قصار حضرت رسول‌اكرم، ابوالقاسم‌پاينده، ص28۔
[8] میزان الحکمہ، محمد محمدی ری شهری، ج2، ص98۔
[9] میزان الحکمہ، محمد محمدی ری شهری، ج3، ص495۔
[10] میزان الحکمہ، محمد محمدی ری شهری، ج1، ص528۔
[11] معانى الاخبار، شيخ صدوق، ص119۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
19 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 50